تحریر : محمد یاسین صدیق
یوحنا آباد میں دہشت گردی کے تازہ واقع پر ہر درد دل رکھنے والا پاکستانی اشکبار ہے اس میں 16 افراد کو دہشت گردوں نے بم دھماکے سے ہلاک کر دیا دو بے گناہ لوگوں کو عیسائیوں نے دوران احتجاج جس طرح جلایا بربریت کی مثال قائم کر دی کہ دو مسلمان بناثبوت کے زندہ جلا دیا ۔بہت سے لوگوں نے مسیحی برادری کہ اس عمل کو ردعمل کا نام دیا ۔اس غیر انسانی واقعے پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے ۔ کیا یہ دہشت گردی نہیں ہے ۔کہا جاتا ہے کہ یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ حکومت طاقت استعمال کر تی تو اپوزیشن پارٹیوں، این جی اوز اور میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لینا تھا۔
پھر بھی اس کے ذمہ دار قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی ہیں ،لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کس کی ذمہ داری ہے ۔یوحناآباد میں چرچ پر حملوں کے بعد احتجاج کے دوران جلائے جانیوالے دوافرادمیں سے ایک کی شناخت ہوگئی ہے۔ نجی ٹی وی چینل کے مطابق مرنیوالے ایک شخص کی شناخت محمد نعیم کے نام سے ہوئی اوروہ قصور کارہائشی تھا۔ اور دوسرے کا نام بابر بتایا جاتا ہے
اس واقعہ پر ۔فیس بک پر(سید بدر سعید تحقیقی صحافی نوائے وقت گروپ ) نے ایک پوسٹ لگائی ہے کہ ٭مسیحی بھائیوں کی عبادت گاہ پر حملہ کرنے والے مسلمان نہیں ہو سکتے (حضرت محمد کی تعلیمات سے اخذ کردہ)٭مسلمان بھائیوں کو زندہ جلا کر ویڈیو بنانے والے مسیحی نہیں ہو سکتے ( حضرت عیسی (علیہ اسلام) کی تعلیمات سے اخذ کردہ)ایسا کیوں ہوا اس کے اسباب کیا ہیں اس کا سب سے بڑا سبب انصاف کا نہ ملنا ہے ،حکمرانوں کی مفاہمت ہے ،ہر قانون توڑنے والے کو سخت سے سخت سزا ہی اس کا حل ہے
مگر ایسا سوائے فوج کے کوئی اور ادارہ نہیں کر سکتا ۔عدلیہ، قانون، انصاف، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومتوں سے بالکل ناامیدی ہی ان بڑھتی ہوئی انتہاپسند حرکتوں کا باعث بن رہی ہے ۔اس لیے قانون نافذ کرنے والوں اداروں کو اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے ۔اگر عوام نے ہر ظلم کا بدلہ خود لینا شروع کردیا تو مْلک کسی جنگل کا منظر پیش کرے مسجد، چرچ، مندر، امام بارگاہ عام بازار، خاص بازار، اسکول، ک کالج، پولیس چوکی اب کچھ بھی محفوظ نہیں رہا ۔یہ بات سوچنے کی ہے کہ دہشت گردوں کو ختم کرنے کی بجائے کاش ان اسباب کو ختم کیا جائے جس کے پیٹ سے دہشت گردی جنم لے رہی ہے ان میں اول ہے نا انصافی ،عدل کا عنقا ہونا ،انصاف کا بکنا اگر ملک میں نظام عدل کو مضبوط بنایا جائے فوری اور فری انصاف ملے تو انتہا پسندی اور دہشت گردی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
دوم غربت وبھوک بے روزگاری ،مہنگائی،اگر حکومت بنیادی ضروریات زندگی کی دس اشیاء سستی کردے تو غربت کا خاتمہ ممکن ہے ،اس کے ساتھ بے روزگاری کا خاتمہ لازم ہے سوئم ملک میں یکساں نصاب تعلیم ،نظام تعلیم نافذ کیا جائے اور سرکاری ،عدالتی زباں اردونافذ کرنے کے ساتھ نیا نصاب ترتیب دیا جائے ۔ چہارم قانون نافذ کرنے والے اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں مثلا پولیس ،وکلا،جج وغیرہ کو غیر سیاسی بنایا جائے۔
پنجم مذہب اسلام میں فرقہ بندی کو روکا جائے اور کسی فرقہ کو بھی دوسرے فرقے کے خلاف تکفیری فتووں کی اجازت نہ ہو ،اس پر کڑی سزا تو رکھی ہی جائے ساتھ ہی اسلام کی روح حقوق العباد کو قانونی حثیت دی جائے ۔یہ چند اقدامات ایسے ہیں جن پر کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہے کیونکہ عوام کے دل کی آواز ہیں اور ان پر حکومت کے اربوں روپے بھی خرچ نہیں ہوں گے ۔اگر ضرورت ہے تو صرف ملک ،قوم ،عوام سے مخلص ہونے کی ہے۔
تحریر : محمد یاسین صدیق