اسلام آباد (ویب ڈیسک ) سانحہ ساہیوال پر نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے صحافی و تجزیہ کار اوریا مقبول جان نے کہا کہ انٹیلی جنس کی بنیادوں پر جو آپریشنز کیے جاتے ہیں ان میں بنیادی طور پر بہت احتیاط کی جاتی ہے۔ احتیاط اس لیے کی جاتی ہےکہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر کیے جانے والے آپریشن کوکورٹ آف لاء میں ثابت نہیں کیا جا سکتا۔کہا گیا تھا کہ ایپکس کمیٹی انٹیلی جنس کی بنیاد پر ہونے والے آپریشنز کی اجازت دے گی لیکنپنجاب میں گذشتہ دو سال سے ایپکس کمیٹی کا کوئی اجلاس نہیں ہوا اور اس کے باوجود آپریشنز چل رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے تین لوگوں کو بچانے کے لیے ذیشان کو دہشتگرد قرار دیا گیا۔ جو ثبوت فراہم کیا جا رہا ہے وہ ذیشان کی ایک دہشتگرد کے ساتھ تصویر ہے اور دوسرا ذیشان کی گاڑی ایک اور گاڑی کے ساتھ لوکیٹ ہوئی ہے۔لیکن بات یہ ہے کہ جس کے ساتھ ذیشان کی تصویر ہے وہ بھی مر چکا ہے ، اُس کا اگلا والا بھی مر چکا ہے کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ کیا صرف تصویر کی بنیاد پرقتل کرنے کا لائسنس مل سکتا ہے؟ اگر تصویر کی بنیاد پر قتل ہی کرنا ہے تو پھر سب سے پہلے حامد میر کو کرنا چاہئیے کیونکہ اس کی تصویر دنیا کے سب سے بڑے دہشتگرد اُسامہ بن لادن کے ساتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی ٹی ڈی کے بے جا اختیارات دئے گئے ہیں ، میں خود ایڈمنسٹریشن میں رہا ہوں اور اتنا تو جانتا ہوں کہ زندہ دہشتگرد زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔وہ لیڈ دیتا ہے ، وہ صورتحال بھی بتاتا ہے۔ اس معاملے میں بھی سی ٹی ڈی نے بُرا کام کیا، انہوں نے ایک دہشتگرد کو ، جو زندہ پکڑا جا سکتا تھا، مار دیا ۔ اس ضمن میں پنجاب حکومت بھی کچھ کرنے سے قاصر ہے اور پنجاب حکومت سے یہ معاملہ ہینڈل نہیں ہو رہا۔