counter easy hit

دہشت گردی ایک فکری مطالعہ

تشدد کا  سفر ایک طویل اور دردناک تاریخ رکھتا ہے لیکن سفر میں سب سے بڑا سنگ میل 1979 میں سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت کے بعد ریاستی سطح پر تشدد کی سرپرستی اہم ترین ہے۔ جب مغرب نے ریاست پاکستان کی سرپرستی کی ۔مغرب نے افغانستان میں جنگ  جیتنے کے لیے لوگوں کو مذہب کے نام پر اکٹھا کرکے تشدد کی پالیسی کا آغاز کیا گیا۔ اس کو پاکستان کے مذہبی رجحان رکھنے والے سیاسی حلقوں، دانشوروں اور امریکا نے جہاد کا نام دیا۔ مصنف فرخ سہیل گوئندی نے سلمان عابد کی کتاب ’’دہشت گردی ایک فکری مطالعہ‘‘  کے مقدمہ میں حقائق سے بھرپور تحریر لکھ کر دہشت گردی کا پس منظر بیان کردیا۔ سلمان عابد نے دہشت گردی کا پس منظر اور اس کے اثرات کو اپنی کتاب دہشت گردی ایک فکری مطالعہ میں سمو دیاہے ۔

یہ کتاب 340 صفحات پر مشتمل ہے اور 21 سے زائد موضوعات اس کتاب میں شامل ہیں۔ سلمان عابد نے دہشت گردی سے متعلق تمام اہم شعبوں کو اس کتاب میں شامل کیا۔ ان موضوعات میں دہشت گردی کی جنگ، یہ جنگ کس کی جنگ، دہشت گردی اور پارلیمنٹ، دہشت گردی اور ذرایع ابلاغ، دہشت گردی اور مذہبی جماعتیں، سمیت بہت سے اہم موضوعات شامل ہیں۔ سلمان عابد لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر مبارک علی نے بنیادی نقطہ اٹھایا ہے، وہ ٹھیک کہتے ہیں۔

انتہاپسندی کا معاملہ خاصا پرانا ہے اور بدقسمتی سے ہماری سیاست میں مذہب کو سیاسی طور پر حکمراں طبقات نے جس خوفناک انداز سے استعمال کیا ہے، اس کا نظیر نہیں ملتی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمیں بطور پاکستانی یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر طرح کی عسکری یا مسلح جدوجہد کا نتیجہ چاہے اس کی بنیاد مذہبی ہو لسانی، علاقائی ہو یا فرقہ وارانہ، نتیجہ ایک بڑے فساد کی صورت میں ہی نمودار ہوگا۔ اس مسئلہ پر ہماری داخلہ اور خارجہ پالیسی میں جو تضادات ہیں ان کو ختم کرنا ہماری قومی اور سیاسی ترجیحات کا اہم حصہ ہونا چاہیے۔

وہ دہشت گردی اور پارلیمنٹ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ جمہوری حکمرانی میں پارلیمنٹ اور پارلیمانی سیاست کی سب سے زیادہ اہمیت ہونی چاہیے۔ پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کی ذمے داری محض حکومت کی نہیں بلکہ حزب اختلاف کی بھی ہوتی ہے لیکن حزب اختلاف کے مقابلے میں حکومت کی ذمے داری زیادہ ہوتی ہے کہ وہ پارلیمانی سیاست کو مضبوط بنا کر خود حزب اختلاف کے لیے مثبت کردار ادا کرسکتی ہے۔ لیکن ہم نے اپنی کمزور جمہوری حکمرانی میں جہاں اور بہت سی سیاسی غلطیاں کی ہیں ان میں پارلیمنٹ کو کمزور کرنا بھی شامل ہے۔

سلمان عابد نے پارلیمنٹ کی بالادستی میں درپیش رکاوٹوں کا یقینی انداز میں تجزیہ کیا، مگر پارلیمنٹ کی بالادستی میں ایک اہم رکاوٹ عسکری مقتدرہ کا کردار ہے۔ انھوں نے یہ درست نتیجہ نکالا کہ پارلیمنٹ کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے باہر سے دباؤ نہیں بڑھے گا اور اس دباؤ کی بنیاد عملی اور تحقیق کی بنیاد پر نہ ہو تو ہماری پارلیمنٹ ایک موثر کردار کے طور پر سامنے نہیں آسکے گی۔

اس کتاب کا ایک اہم ترین موضوع دہشت گردی اور ذرائع ابلاغ ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جہاں تک دہشت گردی اور انتہاپسندی کا تعلق ہے تو اس پر میڈیا کے کردار کو آج کے حالات میں ایک نئے زاویے کے ساتھ غیر معمولی اقدامات کی صورت میں دیکھنا ہوگا، کیونکہ حالت جنگ میں ڈوبی ہوئی ریاست کا معاشرہ اسی صورت میں اپنے لیے محفوظ راستہ تلاش کرسکتا ہے جب دیگر فریقین کے ساتھ میڈیا بھی ریاستی بحران میں اپنی ذمے داری ایک ذمے دارانہ طریقے سے ادا کرے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمہ کے حوالے سے ایک نقطہ میڈیا کے کوڈ آف کنڈکٹ کا ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیںکہ اس میں ایک مسئلہ میڈیا کی آزادی کا ہے تو دوسری طرف یہ بحث ریاست کے اپنے مفادات سے بھی جڑی ہوئی ہے۔

میڈیا کی آزادی میں اس نقطہ پر زیادہ توجہ دینی ہوگی کہ کہیں اس آزادی کے نام پر عمل دہشت گردوں کو تقویت نہ فراہم کرے۔ دہشت گردی اور نوجوان طبقہ کے حساس موضوع پر سلمان لکھتے ہیں کہ فکری بنیادوں پر معاشرے کے اہل دانش کو اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر نوجوان طبقہ میں ایک فکر کو بیدار کرنا ہوگا۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف لڑنا ریاست سمیت خود ان کی اپنی بقا کا بھی مسئلہ ہے۔ یہ سوچ کہ طاقت کا استعمال جائز ہے، اس کی نفی کرنی ہوگی اور باور کرانا ہوگا کہ ہمیں رواداری، مکالمہ اور گفتگو سمیت پرامن سیاسی جدوجہد کو بنیاد بنا کر اپنی بقا کی جنگ لڑنی ہے۔ وہ دہشت گردی اور مذہبی مدارس کے اہم موضوع پر کچھ اس طرح لکھتے ہیںکہ مذہبی اور دینی قیادت کے بقول ہم دہشت گردی کی جنگ میں یقیناً حکومت اور فوج کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن دینی مدارس کے معاملے پر ہمیں اعتماد میں لینے کے بجائے تنہا ہر وار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس کوشش کا نتیجہ اعتماد سازی کے ماحول میں بداعتمادی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ انھوں نے دہشت گردی اور مقامی حکومتیں کے موضوع کی یوں تشریح کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جو بیس نکاتی پلان سامنے آتا ہے اس بیس نکاتی ایجنڈا میں ہمیں کہیں بھی مقامی حکومت یا اس طرزِ حکمرانی کے ایجنڈے کی بالادستی نظر نہیں آتی۔ وہ دہشت گردی اور عالمی علاقائی سیاست کے موضوع پر لکھتے ہیں کہ ہماری خارجہ پالیسی ایک بیرونی دباؤ سے جڑی ہوئی ہے۔ نظریہ ضرورت کے قانون کے تحت اختیار کی جانے والی بیشتر پالیسیوں کو عالمی دباؤ اور حمایت کے حصول کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔

انھوں نے معروف کالم نگار زاہدہ حنا کے ایک کالم کا اقتباس شایع کیا ہے۔ اس اقتباس میں زاہدہ لکھتی ہیں کہ ’’دنیا شاید جنگوں کے دور سے نکل رہی ہے لیکن شاید وہ انتہاپسندی، مذہبی جنون اور دہشت گردی کے ایک دوسرے اور بہت خطرناک دور میں داخل ہوچکی ہے۔ دہشت گردی کی عنصریت عظیم جنگوں سے کہیں خطرناک ہے۔‘‘ مصنف اس موضوع کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اب یہ پرامن معاشرہ راتوں رات تو نہیں بنے گا، کئی دہائیوں پر مشتمل آگ اور خون کا کھیل اگر ہم درست کرنا چاہیں تو ہمیں ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

وہ دہشت گردی اور پولیس کے موضوع پر لکھتے ہیں کہ پولیس ریفارمز کے نام پر بہت سی نئی پالیسیاں، اصلاحات اور ترامیم کا عمل سامنے آیا لیکن وہ نتائج نہ مل سکے جن کی توقع کی جاتی تھی۔ سلمان نے ایک اور اہم موضوع دہشت گردی اور مذہبی جماعتیں کو کتاب کی زینت بنایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ حالیہ دہشت گردی کی جنگ میں اگرچہ مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے والی جماعتیں اس کی مذمت کرتی ہیں لیکن حکمت عملی، سوچ اور فکر کے تناظر میں ان کا موقف کئی حوالوں سے مختلف بھی رہا ہے۔ پاکستان میں ایسی مذہبی جماعتوں کی کمی نہیں جو امریکا کی مخالفت کے باعث انتہاپسند مذہبی عناصر کی پرتشدد کارروائیوں کی حمایت کرتی رہی ہیں۔ اس وقت بھی بعض جماعتیں اس دہشت گردی کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھنے کے بجائے امریکا اور غیر ملکی طاقتوں کی جنگ سمجھ کر اس پر ردعمل ظاہر کرتی ہیں۔

وہ دہشت گردی اور کرپشن کے موضوع پر لکھتے ہیں کہ معاشرہ مجموعی طور پر پاکستان کی جمہوری سیاست، حکومت اور ریاستی اداروں پر کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف کوئی ایسا دباؤ قائم نہیں کرسکا جو اس موذی مرض کے سامنے بند باندھ سکتا۔ اگر ہمیں واقعی دہشت گردی اور انتہاپسندی کی سیاست سے باہر نکلنا ہے تو ہمیں اس بدعنوانی کی سیاست کو لگام دینا ہوگا۔ سلمان اس موضوع کا احاطہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی اور حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ فوج، ریاستی اداروں، حکومت، سیاسی و مذہبی جماعتیں، سیاسی اشرافیہ، علمائے کرام اور عام آدمی کی مدد سے جیتی جاسکتی ہے، جب کہ ہم اس جنگ کو ایک دوسرے پر ڈال کر خود کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ عملی طور پر جنگ سے نمٹنے میں ہمیں مدد کم اور مشکلات زیادہ فراہم کرے گی۔ حرفِ آخر کے عنوان سے مصنف لکھتے ہیں کہ اس پورے مقدمہ کا بنیادی خلاصہ یہی ہے کہ ہماری ریاست اور معاشرہ سمیت سب فریقین کو دہشت گردی سے بچنے کے لیے انتہاپسندی کے خاتم کو اپنی قومی ترجیح بنانا ہوگا۔

مصنف نے دہشت گردی کے متعلق اہم موضوعات کتاب میں شامل کیے ہیں۔ دہشت گردی اور اس سے منسلک موضوعات پر یہ ایک جامع کتاب ہے۔ کتاب کے مطالعہ کے دوران مختلف مصنفین کے بہت سارے اقتباسات سے الجھن ہوتی ہے مگر خوبصورت، سادہ اور سلیس زبان کے مطالعے سے اس کتاب میں دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔ اس کتاب کو کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر پڑھائے جانے والے سماجی علوم کے نصاب میں شامل ہونا چاہیے تاکہ نئی نسل کے ذہن تبدیل ہوں اور دہشت گرد تنہا ہوجائیں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website