یہ نومبر 2008 ہے. ملک پاکستان میں جرنیل مشرف کو استعفیٰ دیے تین ماہ گزر چکے ہیں. اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ہیں. صدارت کا عہدہ آصف علی زرداری کے پاس ہے. اپوزیشن لیڈر نواز لیگ کے رہنما چودھری نثار ہیں اور چیف آف آرمی سٹاف جرنیل اشفاق پرویز کیانی.
بھارت کے شہر ممبئی میں دہشت گردانہ حملوں میں ڈیڑھ سو سے زاید لوگ اپنی جان سے جا چکے ہیں. دنیا بھر سے مذمتوں کا سلسلہ جاری ہے. پاکستان سے بھی سرکاری سطح پر تعزیت اور مذمت دونوں کے پیغامات سفارتی اور غیر سفارتی سورسز سے بھارت کے حکمرانوں تک پہنچ چکے ہیں. باوجود اس کے کہ بھارت کی جانب سے حسب سابق پاکستان پر اس کا الزام لگایا جا چکا ہے. دونوں ملکوں کے حالات کشیدہ ہیں اور خطے پر ایک بار پھر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
یہ سال 2009 ہے۔ مارچ کا مہینہ ہے اور لاہور سے ایک مارچ نواز شریف کی قیادت میں اسلام آباد کی طرف نکل چکا ہے۔ مارچ کا ہدف معزول چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی ہے۔ مارچ لاہور سے گوجرانوالہ پہنچتا ہے تو صاحبان اختیار معزول جسٹس کی بحالی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ نواز شریف کو جرنیل کیانی کی ایک کال آتی ہے اور مارچ ختم کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے۔
یہ سال 2011 ہے۔ مئی کا مہینہ ہے۔ القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کی بارات پیا گھر سدھار چکی ہے۔ گو ان کے میکے میں ابھی تک اس بات پر بحث جاری ہے کہ وہ وجود بھی رکھتے تھے یا محض ایک افسانوی کردار تھے۔ سب سے مزے دار بات یہ ٹھہری کہ جو یہ سوال اٹھا رہے تھے وہ اس رخصتی کے موقع پر قریبی عزیزوں سے بڑھ کے ٹسوے بہاتے رہے۔
یہ نومبر کا مہینہ ہے۔ نواز شریف کالا کوٹ پہنے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت میں پاکستان کے صدر کو غدار قرار دلوانے آ پہنچے ہیں۔ گذشتہ چند ماہ میں ان کی آشیر باد کے ساتھ ان کی جماعت کے اپوزیشن لیڈر چودھری نثار اور نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف آرمی چیف جرنیل کیانی سے لگ بھگ ڈیڑھ درجن ملاقاتوں کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ملک کی سلامتی کو موجودہ حکومت سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت سیکورٹی رسک بن چکی ہے اور اس صورت حال میں ایسی پارٹی کی ملک پر حکمرانی ملک کی بقا کے لئے زہر قاتل ہے۔ عدالت کا جج بحال شدہ چیف جسٹس افتخار چودھری ہے۔
یہ سال 2013 ہے۔ پاکستان میں الیکشن کی بہار قریب ہے۔ ملک میں وزارت عظمیٰ یوسف رضا گیلانی سے راجہ پرویز اشرف کو منتقل ہو چکی ہے۔ نواز شریف، شہباز شریف اور چودھری نثار کی بچھائی ہوئی فیلڈنگ کے عین مطابق اگلے وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر چنے جا چکے ہیں۔ چننے والے جرنیل کیانی اپنی دوسری اور حتمی ریٹائرمنٹ کی مدت سے چند ماہ دور ہیں۔ الیکشن ہوتے ہیں اور نواز شریف وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہیں۔ غدار آصف علی زرداری سے حلف لیتے ہیں۔ چند ماہ بعد زرداری کی جگہ ممنون حسین لیتے ہیں اور جرنیل کیانی کی وراثت جرنیل راحیل شریف کو منتقل ہوتی ہے۔ اگلے تین سال قومی سطح پر شکریہ راحیل شریف کے سال قرار پاتے ہیں۔
یہ سال 2016 ہے۔ پانامہ سکینڈل عالمی سیاست کے در و بام ہلا چکا ہے۔ پاکستان میں اس معاملے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کے کتنے ہی ناکام دور ہو چکے ہیں۔ ایک بار پھر نومبر کا مہینہ ہے۔ فوج کی کمان جرنیل راحیل شریف سے جرنیل باجوہ کو منتقل ہو چکی ہے۔ جرنیل راحیل شریف کی طرح جرنیل باجوہ بھی نواز شریف کے چنے ہوے آرمی چیف ہیں۔ دسمبر کا مہینہ ختم ہوتا ہے۔
ملک میں نیا سال اور نیا چیف جسٹس بھی آ چکا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر سماعتیں ہو رہی ہیں۔ حکومتی جماعت کے وکلاء اپنی قانونی مہارت سے زیادہ عربی خطوط پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں۔ عدالت ثبوت مانگتی ہیں۔ یہ خطوط دیتے ہیں۔ اپریل میں عبوری فیصلہ آتا ہے۔ اس پر حکومتی جماعت مٹھائی بانٹتی ہے۔ سرخروئی کے دعوے اور اگلے الیکشن میں فتح کے ایڈوانس شادیانے بجتے ہیں۔ سورج رخ بدلتا ہے۔ گرمی تیور دکھانا شروع کرتی ہے۔ جون کے بعد جولائی آتا ہے۔ نا اہلی ساتھ لاتا ہے۔ تاریخ خود کو دہراتی ہے تھوڑے رد و بدل کے ساتھ۔ میاں صاحب اگست کے شروع میں اسلام آباد سے لاہور واپس مارچ کرتے ہیں۔ پہلے عدلیہ پر تنقید۔ پھر فوج پر، یہ سلسلہ چند ماہ جاری رہتا ہے۔ جوں جوں تحقیقات طول پکڑتی ہیں توں توں میاں صاحب کا لہجہ سخت ہوتا جاتا ہے۔ درمیان میں کبھی سعودیہ، کبھی لندن کا دورہ، پیغامات کبھی بیرون ملک سے کبھی اندروں ملک سے پہنچائے جا رہے ہیں۔ دال کو کبھی پیار اور کبھی زبردستی گلانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ہنڈیا ہے کہ مان ہی نہیں رہی۔ عدالت پیشی کے موقع پر نواز شریف دھمکی دیتا ہے۔ میرے سینے میں بہت راز ہیں۔ مجھے تنگ مت کرو۔
سننے والے سنتے ہیں۔ دیکھنے والے دیکھتے ہیں۔ کچھ ہاتھ راز کے راز رہنے کی دعا کے لئے اٹھتے ہیں اور کچھ راز کھلنے کے لئے۔
پھر ایک دن راز کھلتا ہے۔ کہا جاتا ہے ممبئی حملہ ہمارے کچھ غیر ریاستی عناصر نے کیا۔ ایک طوفان اٹھتا ہے۔ ہر سمت سے غدار، غدار کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ خبر چھپتی ہے۔ پڑھنے والوں کو اس میں کچھ نیا نہیں دکھتا۔ یہ راز تو سابق صدر مشرف، کچھ ریٹائرڈ فوجی افسران اور کچھ سیاست دان بیچ بازار کھول چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے اس بار بات زیادہ سنگین ہے۔ الزام لگانے والا تین بار کا وزیر ا عظم ہے۔ دنیا ہنسے گی۔ ملک کی بدنامی ہوگی۔، یہ کیسی بدنامی ہے جو سابق صدر کے کہنے سے تو نہیں ہوتی لیکن ایک سابق وزیر اعظم کے کہنے سے ہوتی ہے؟
ایک سمت سے آواز آتی ہے یہ نظریاتی ہونے کے کمالات ہیں۔ سچ بولنا صرف نظریاتی لوگوں کا شیوا ہے۔ نواز شریف سچ کہتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف نواز شریف کا ساتھ دو۔
دوسری سمت چند درویش بیٹھے یہ تمام معاملہ دم بخود دیکھتے ہیں۔ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں یہ کیسا نظریاتی ہے جو دہشت گردی کے خلاف تو ڈٹ جانے کے دعوے کرتا ہے لیکن خود کبھی عابد کوٹلہ کو ٹکٹ دیتا ہے، کبھی عباد ڈوگر کو، کبھی لدھیانوی سے جپھیاں ڈالتا ہے کبھی فضل الرحمان کے واری جاتا ہے؟ ایک درویش دوسرے سے سوال کرتا ہے کہ کیا معاملہ سچ میں دہشت گردی ہے یا اصل مسئلہ مجھے کیوں نکالا ہے؟
اگر مسلہ دہشت گردی ہوتی تو ممبئی حملے میں ملوث تنظیم کے رہنما کو اکاؤنٹس منجمد کرنے سے پہلے مخبری کرنے والے شہباز شریف کو کیا سزا دی گئی؟ دہشت گردوں کے ساتھ الیکشن مہم چلانے پر رانا ثناء اللہ کی کیا سرزنش ہوئی؟
اور اگر حقیقت میں یہ سٹینڈ دہشت گردی کے خلاف ہے تو چار سال حکومت میں رہتے ہوئے اس سب کا جواب کیوں تلاش نہیں کیا گیا؟ جرنیل کیانی سے اس بابت کیا معاملہ کیا گیا؟ یا اس وقت وزارتِ عظمیٰ کے شوق میں ان تمام معاملات سے آنکھیں چرا کر “جو ملتا ہے لے لو” کا اصول اپنایا گیا اور اب نا اہل ہونے کے بعد ان مسئلوں کو استعمال کر کے اپنی قیمت بڑھائی جا رہی ہے؟ اگر یہ نظریہ ہے تو بلیک میلنگ اور کسے کہتے ہیں؟
اور رہی غداری کے فتووں کی برسات تو ہر سیزن میں یہ اپنا ٹارگٹ بدلتے رہتے ہیں۔ آج جو غداری کے گولے داغنے والی اس توپ کے پیچھے کھڑے ہیں، کل کو سامنے کھڑا کر نشانہ ان پر بھی لگ سکتا ہے۔
تاریخ کا پہیہ چلتا جا رہا ہے۔ ہر وہ شخص جو تاریخ سے نہیں سیکھتا اس پہیے کے نیچے روندا جائے گا۔
ملکی سالمیت ابھی بھی خطرے میں ہے۔ نازک موڑ ہے کہ ستر سال سے دائرے کی طرح گھومے جا رہا ہے۔ نظریہ مر چکا ہے۔ جمہوریت کو گالی بنا دیا گیا ہے۔ آمریت غائب ہے لیکن پھر بھی ہر جگہ موجود ہے۔ عوام بس ڈگڈگی پر ناچے چلے جا رہے ہیں۔