تحریر : سید انور محمود
امریکی صدر براک اوباما نے 12 جنوری کو سٹیٹ آف دی یونین سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ شدت پسندی کی وجہ سے پاکستان اگلی کچھ دہائیاں عدم استحکام کا شکار رہے گا۔ امریکی صدر اوباما نے اپنی تقریر میں یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان کے کچھ حصوں میں آنے والی کئی دہائیوں تک بدامنی جاری رہے گی۔ امریکی صدر اوباما کے خیالات ہمارے ارباب اختیار کو بلکل اچھے نہیں لگے، کیونکہ اُنکا خیال تھا کہ امریکی صدر پاکستان کی موجودہ داخلی اور خارجہ پالیسی کی تعریف کرینگے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اوباما کی قیادت میں امریکی حکومت کا آٹھ سالہ دور جنوری 2017ء میں مکمل ہوگا، جب کہ اگلے سال انتخابات ہوں گے اور اسکے ساتھ ہی اوباما کا دور بھی ختم ہوجائے گا۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ گذشتہ 35 سال سے پاکستان کی خارجی اور داخلی پالیسیوں کی رہنمائی امریکہ سے کی جاتی رہی ہے۔ جنرل ضیاءالحق سے لیکر نواز شریف تک سب امریکی پالیسی پر عمل کرتے رہے ہیں، بلکہ کافی عرصے تک تو امریکہ کی طرف سے “ڈو مور” کے نعرئے بھی لگتے رہے ہیں۔
پاکستان کی سینیٹ میں18 جنوری کو حزب اختلاف کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے امریکی صدر براک اوباما کی طرف سے پاکستان کے بارے میں جاری کیے گئے بیان پر تحریک التوا پیش کی جس کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستانی حکومت امریکی صدر کے بیان کو بطور چیلنج لیتی ہے۔سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان گذشتہ تین دہائیوں سے شدت پسندی کا شکار رہا ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کا تشخص خراب ہوا اور ملک عدم استحکام کا شکار ہوا۔ سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ امریکی صدر براک اوباما کے آئندہ کئی دہائیوں تک پاکستان کے عدم استحکام ہونے سے متعلق خدشات درست نہیں ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ امریکہ اور اتحادی ملکوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے خطے میں عدم استحکام رہا ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ موجودہ نواز شریف حکومت گذشتہ ڈھائی سالوں میں خارجہ اور ملکی سلامتی سے متعلق پالیسیوں میں تبدیلی لائی ہے جس کے مثبت اثرات دکھائی دے رہے ہیں۔ بقول سرتاج عزیز کہ 2013ء میں کراچی آپریشن اور پھر شدت پسندوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں کے خلاف عدم برداشت کی پالیسیوں کی وجہ سے گذشتہ برس شدت پسندی کے واقعات میں 2014ء کی نسبتاً 50 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
کراچی آپریشن اور آپریشن ضرب عضب کے شروع ہونے کے بعد شروع شروع میں تو ایسا لگ رہا تھا کہ اب نہ دہشتگردوں کی خیر ہے اور نہ ہی کراچی کے جرائم پیشہ عناصر باقی رہیں گے۔ اس سے کوئی انکار نہیں کہ 2015ء میں 2014ء کی نسبت دہشتگردی اور جرائم میں کمی واقع ہوئی ۔لیکن ایسا بلکل نہیں ہوا کہ دہشتگردی مکمل ختم ہوگئی ہو۔2015ء میں 30 جنوری کو صوبہ سندھ کے شہر شکار پور میں ایک امام بارگاہ پر کیے جانے والے ایک خود کُش حملے میں باسٹھ افراد شہید ہوئے۔ 13 فروری کو پشاور میں ایک امام بارگاہ پرعسکریت پسندوں کے ایک حملے میں بائیس افراد شہید ہوئے۔ 13 مئی کو مسلح افراد نے کراچی میں ایک بس پر حملہ کرکے 46 اسماعیلی برادری کے لوگوں کو شہید کردیا۔ 18 ستمبرکو پشاور کے قریب ایئرفورس کا ایک اڈہ پاکستانی طالبان کے ایک حملے کا نشانہ بنا، کم از کم 29 افرادشہید ہوئے، جن میں سے زیادہ تر وہاں خدمات انجام دینے والے عملے کے ارکان تھے۔ 29 دسمبرکو مردان میں ایک موٹر سائیکل پر سوار ایک خود کُش طالبان حملہ آور نے 26 لوگوں کو شہیدکردیا۔ 18 جنوری 2016ء کو کوئٹہ کے علاقے مارگٹ میں واقع ایف سی چیک پوسٹ کے قریب سکیورٹی فورسز کی گاڑی کو ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا گیا۔ بم دھماکے میں 6 ایف سی اہلکار شہید ہوئے۔19 جنوری 2016ء کو پشاور چیک پوسٹ خود کُش دھماکے میں تیرہ افراد شہید ہوئے۔ 20 جنوری، 2016ء کو چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر طالبان کے چار دہشتگردوں نے ایک حملے میں اکیس افراد کو شہید کردیا، شہید ہونے والوں میں ایک پروفیسر، ایک لیب اسسٹنٹ اور 19 طلبہ شامل ہیں۔
سولہ دسمبر 2014ء کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ہونے والی دہشتگردی کا واقعہ انسانی تاریخ کا دوسرا بدترین سانحہ ہے، جس میں 132 بچوں سمیت 148 بے گناہ لوگوں کو شہید کردیا گیا، سترہ دسمبر 2014ءکووزیراعظم نواز شریف کی بلائی ہوئی ہنگامی آل پارٹیز کانفرنس میں ملک کی تقریبا تمام سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔ مشترکہ اجلاس کے بعد کیے جانے والے مشترکہ اعلامیے کے مطابق “نیشنل ایکشن پلان” کمیٹی ایک ہفتے میں اپنی تجاویز تیار کرے گی جنھیں منظوری کے لیے ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کو پیش کیا جائے گا۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے “نیشنل ایکشن پلان” کے نفاذ کو ایک سال گزر جانے کے باوجود سول سکیورٹی اداروں کو جدید اور مضبوط بنانے کے ضمن میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی۔اسی منصوبے کے تحت نیکٹا نامی انسدادِ دہشت گردی کا اعلیٰ ترین ادارہ بھی وجود میں آنا تھا مگر عملی طور پر اس کے پاس صرف اسلام آباد میں درجن بھر اہلکاروں اور ایک دفتر سے زیادہ کچھ نہیں۔
نیشنل پولیس بیورو کے سابق سربراہ شعیب سڈل نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ “سب سے زیادہ پولیس کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر پولیس اپنا کام صحیح کرے تو فوج اور رینجرز کی مدد کی بہت کم ضرورت پڑے گی”۔ تناسب کے لحاظ سے اوسطاً ہر 450 شہریوں کے لیے ایک پولیس اہلکار ہے۔ نیشنل بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں ایک لاکھ 18 ہزار، سندھ میں ایک لاکھ 14 ہزار، اسلام آباد میں دس سے 11 ہزار، خیبر پختونخوا میں 66 ہزار، بلوچستان میں 35 سے 36 ہزار،گلگت بلتستان چھ ہزار اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں آٹھ ہزار پولیس نفری موجود ہے۔ اقوامِ متحدہ کے معیار کے مطابق ہر 350 شہریوں کےلیے ایک پولیس اہلکار ہونا چاہیے۔ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں پولیس اور شہریوں کا تناسب اتنا کم بھی نہیں۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشتگردانہ کاروائیوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے عام لوگوں میں خوف وہراس اب بہت تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔ عوام کو بار بار بتایا گیا ہے کہ دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہی ، لیکن ٹوٹی کمر والوں کا حال یہ ہے کہ 29 دسمبر 2015ء سے جنوری 2016ء کے پہلے تین ہفتوں میں مردان، کوئٹہ، پشاور، اور چارسدہ میں ہونے والے حملوں نے دہشتگردوں کی کمر توڑ نے کے دعوے کو غلط ثابت کردیا؟ کیا چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر خوفناک حملہ ہمارے طاقتور خفیہ اداروں کی ناکامی نہیں؟ دشمن نے پھر ایک وار کیا ہے، 16 دسمبر 2014ءکے زخموں کو پھر سے ہرا کردیا ہے، معصوم بے گناہ طلب علم میں نکلے ہوئے جوانوں کے سر اور سینے چھلنی کرتے ہوئے دشمن کے نہ ہاتھ کانپتے ہیں نہ ایک مذہب ایک وطن کا رشتہ اس کے قدموں کو روکتا ہے، ہاں جب ان خون آشام بھیڑوں کو پھانسی دی جانے لگتی ہے تو ان کے دیدہ نہ دیدہ ہمدرد نئی نئی تاویلیوں کے علم اٹھائے انہیں بچانے چلے آتے ہیں ۔ یہ دشمن جس جنگ میں ہمارے بچوں ، جوانوں ، بوڑھوں، مردوں عورتوں کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں شاید وہ خود بھی نہیں جانتے کہ وہ کس کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
پاکستانی طالبان نے چار سدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر دہشتگردانہ حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان درہ آدم خیل نے تو قبول کر لی لیکن ان کی مرکزی قیادت نے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ پہلے پہل درہ آدم خیل کی جانب سے میڈیا سے رابطہ کر کے بتایا گیا کہ چار خودکش حملہ آور روانہ کیے گئے تھے۔ اس سے میڈیا نے یہ تاثر لیا کہ شاید یہ تحریک طالبان کی ہی کارروائی ہے۔ لیکن چند گھنٹوں کے بعد تنظیم کے مرکزی ترجمان محمد خراسانی کی جانب سے میڈیا کو وضاحت موصول ہوئی کہ اس حملے سے ان کا کوئی تعلق نہیں، بلکہ جن لوگوں نے اُن کی تنظیم کا نام استعمال کیا ہے اس کے خلاف کارروائی بھی کی جائے گی۔ جسطرح یہ واضع نہیں ہے کہ باچا خان یونیورسٹی پرکس نے حملہ کیا، بلکل اس طرح ہی یہ بھی واضع نہیں ہے کہ اس حملے میں جو قیمتی جانیں گئی ہیں اسکا ذمہ دار کون ہے ، صوبائی حکومت، وفاقی حکومت، صوبائی وزیر داخلہ یا وفاقی وزیر داخلہ۔ صوبائی وزیر داخلہ کا تو معلوم نہیں البتہ ایک صاحب کے کہنے کے مطابق “وفاقی وزیر داخلہ کا مطلب ہے وزیر داخلہ برائے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، باقی ملک میں جو بھی ہوتا رہے اُس کی بلا سے”، وزیر داخلہ چوہدری نثار کا باچا خان یونیورسٹی پر دہشتگرد حملہ کے بعد سےکہیں نام و نشان نہیں ہے۔
پاکستان کے وزیر دفاع اور وزیراعظم کے قریب ساتھی خواجہ آصف نے 35 سال کی تاریخ اور پالیسی ایک جملے میں بیان کردی، بقول خواجہ آصف “ہم ہاتھوں سے لگائی گئی گرہیں، دانتوں سے کھول رہے ہیں”۔ خواجہ آصف کو یاد رہنا چاہیے کہ یہ گرہیں اُنہوں نے اور اُنکے لیڈر نواز شریف نے اپنے سیاسی امام ضیاالحقء کے ساتھ ملکر لگائی تھیں، مقصد صرف ضیاالحقء کےاقتدارکو طول دینا تھا۔ پاکستان کی اندرونی سکیورٹی میں فوج کا فُٹ پرنٹ ہمیشہ سے حاوی رہا ہے مگر کئی تجزیہ کاروں کے بقول سویلین سکیورٹی اداروں کی کمزوری اور پسماندگی کی بڑی وجہ سیاسی عزم کی کمی ہے جس کا مظاہرہ منتخب حکومت ہی کرسکتی ہے جو شاید نوازشریف کےلیے ممکن نہیں ہے۔ اگرجنرل راحیل شریف چاہتے ہیں کہ اپنے جانے سے پہلے دہشتگردی ختم کردیں تو اُنکو “نیشنل ایکشن پلان” کا مکمل نفاذ کرنا ہوگا، جسکے 75 فیصد حصہ پر قطعی عمل نہیں ہوا ہے۔
دوسرئے کابل اور دہلی کے بجاے پہلے پاکستان میں بیٹھے ہوئے دہشتگردوں کے سہولت کاروں کو ختم کرنا ہوگا، جیسا کہ چارسدہ کے واقعہ میں کیا گیا ہے، یہ ایک اچھی ابتدا ہے کہ سہولت کاروں کو نہ صرف گرفتار کیاگیا ہے بلکہ اُنکومیڈیا کے سامنے بھی کھلے چہروں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ یہ سہولت کاردہشتگردوں کو مختلف سہولتیں فراہم کرتے ہیں، جسکا ذکر فوجی ترجمان نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی کیا ہے۔ ان سہولت کاروں کی وجہ سے ہی دہشتگردی کی کاروائیوں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے، لہذا ان سہولت کاروں کا خاتمہ لازمی ہے۔ اگر جنرل راحیل شریف ان سہولت کاروں کو ختم کرسکے تو تب ہی پاکستان سے دہشتگردی کا خاتمہ ممکن ہے۔
تحریر : سید انور محمود