تحریر: واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم
اس سوال کا جواب کسی کے بھی پاس نہی۔ ویسے تو ایشیا، افریقہ، امریکا اور یورپ پہلے بھی دہشتگردی کا شکار ہو چکے ہیں۔ مگر فرانس کے معاشی اور سیاحتی شہر اور دارالحکومت پیرس میں ہونے والی اس دہشتگردی کے بعد مجھے لگتا ہے کہ حالات بلکل ویسے ہی تبدیل ہو جائے گے جیسے 11 سپتمبر 2001 کے بعد تبدیل ہو گئے تھے۔
یہ بحث بہت پرانی ہے کہ اگر جمعہ کے روز 13 تاریخ ہو تو منحوس سمجھی جاتی ہے ۔ مگر پیرس میں جمعہ کے روز 13 نومبر کو ہونے والی خوفناک دہشتگردی نے یہ بات سچ ثابت کر دی کہ یہ تاریخ کم از کم فرانس کے لئے منحوس ثابت ہوئ۔ ویسے اسی سال کے آغاز میں بھی پیرس میں واقع ایک اخبار کے دفتر (چارلی ہبڈو) پر حملہ ہوا تھا۔ جس میں 16 لوگ قتل کر دیے گئے تھے۔ اس حملہ کا ایک جواز پیش کیا گیا کہ مزکورہ اخبار نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا ہے۔ جہاں مزہبی شخصیات کے خلا توہین قابل مُزمت ہے وہاں کسی کو بھی کسی بھی یہ اجازت نہی دی جا سکتی کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے کر خود فیصلے کرے اور نہ ہی اس جواز کو سپورٹ کیا جا سکتا ہیں۔ ورنہ یہ دنیا ایک جنگل بن جائے گی۔
اس وقت فرانس پر حملے نے نہ صرف فرانس بلکہ تمام یورپ میں بے چینی کی ایک فضا قائم کر دی ہے۔ اس حملے میں تقریبا 135 کے قریب معصوم لوگ قتل کر دیے گئے۔ 100 کے لگ بھگ ایسے زخمی ہیں جن کی حالت تشویشناک ہے۔ جن میں سے 30 سے زائد کے بچنے کے امید بہت کم ہے۔ اور باقی اگر بچ بھی گئے تو زندگی تکلیف دہ ہو گی۔ ان لوگوں کا کیا قصور تھا۔ کچھ فٹبال کے شوقین تھے تو کچھ میوزک کے دیوانے تھے۔ اور کچھ ریسٹورینٹ میں بیٹھے کھانے اور گپ شپ میں مصروف تھے۔ اور پھر اچانک ان سب پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ وقتی طور پر یہ دہشتگرد اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گئے۔ اتنے بڑے جانی نقصان کے بعد فرانس کو معاشی طور پر بھی نقصان کا سامنا ہوا۔ کیونکہ پیرس میں سیاحت وقتی طور پر ہی سہی مگر متاثر ہوئ ہے ۔
اگر ان تمام حالات پر غور کیا جائے تو مجھے دہشتگردوں کے مقاصد کی کامیابی زیادہ واضع نظر آ رہی ہے۔ جیسے کہ ہم نے دیکھا کہ چارلی ہیبڈو پر حملے کے بعد یورپ کی امیگریشن پالیسی یک سر تبدیل ہو گئ تھی۔ انتہائ سخت قوانین بنائے گئے ۔ تارکین وطن کے لئے دروازے بند کر دیے گئے ۔ اس دوران بہت سے تارکین وطن سمندر بُرد بھی ہوئے۔ مگر برطانیہ اور مغربی یورپ نے اپنا رویہ بہت سخت کر لیا تھا۔ اسی دوران داعش کے شام ، عراق اور گرد و نوا کے علاقوں پر حملوں میں تیزی آ گئ ۔ شام اور عراق میں داعش نے بہت سے علاقے پر قبضہ بھی کر لیا۔ داعش کسی بھی لحاز سے القائدہ ، طالبان ، بوکو حرام ، الشباب جیسی کسی بھی دہشتگرد تنظیموں سے کہیں زیادہ مضبوط اور منظم ہے۔ داعش القائدہ کی گود میں پروان چڑھی ۔ اردن سے تعلق رکھنے والے ابو معصب الزرقاوی کو داعش کا بانی کہا جاتا ہے۔ ۔ ابو معصب الزرقاوی نے اسامہ بن لادن کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ الزرقاوی کی موت کے بعد القائدہ نے ایک زیلی شاخ بنائ جو دولت اسلامیہ العراق کے نام سے وجود میں آئ ۔ 2010 میں ابو بکر بغدادی جو کہ اسلامک اسٹیٹ عراق کے پہلے امیر بنے تو یہ تنظیم روز بہ روز مضبوط ہوتی چلی گئ۔
اس کے اہداف یہ ہیں کہ دنیا میں انتشار ، خوف و ہراس کی فضا قائم کی جائے ۔ چونکہ داعش شام کے معصوم اور نہتے لوگوں کے قتل عام میں مصروف تھی ۔ جس کے خوف سے یہ لوگ شام سے فرار ہو کر یورپ میں پناہ کی تلاش میں آ رہے تھے۔ داعش یہ کبھی بھی نہی چاہتی تھی کہ شام کے عوام جو داعش کے نظریات اور فلسفے کے خلاف تھے ایسے آسانی کے ساتھ ان کے چنگل سے نکل کر دنیا میں کہیں بھی آزادی کا سانس لیں سکیں۔ پیرس پر حملہ کر کہ داعش کو ڈبل کامیابی ملی ہے۔ ایک یہ کہ اس نے ثابت کر دیا کہ وہ دنیا میں کہیں بھی کسی بھی وقت کسی بھی ملک پر حملہ کر سکتی ہے ۔ دوسری کامیابی یہ ہے کہ فرانس سمیت یورپ کے سارے ممالک اب شام کے لوگوں کے لئے دروازے بند کر دیں گے۔ اور داعش یہ ہی چاہتی تھی۔ دوسری جانب فرانس اور اس کے اتحادیوں نے داعش پر حملے تیز کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔
اب داعش تو ہوا کا جھونکا ہے جو اُڑ کر کہیں اور چھُپ جائے گا اور اتحادیوں کی بمباری کی زد میں ایک بار پھر مؑصوم لوگ ہونگے۔ اس واقعے کے نتیجے میں یورپ میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے مشکلات بڑھ جاہیں گی۔ جس سے معاشرے میں نفرت اور انتشار میں اضافہ ہوگا۔ حالانکہ اس واقعے میں دو مختلف مقامات پر دو مسلمانوں نے بہت سے لوگوں کی جانیں بچائ ہیں ۔ اور یہ مسلمان ہیرو بن کر سامنے آ رہے ہیں۔
اس تمام واقعہ میں مجھے ایک بات سمجھ نہی آئ کہ ہم پاکستانی خود کلہاڑے پر پاؤں مارنے کے لئے کیوں تیار رہتے ہیں۔ فرانس کا واقعہ ہوا تو ہماری منی لانڈرینگ کی کہانی سامنے آ گئ۔ یہ ہماری غیر زمہ داری ہے کہ ایک طرف تو ہم اپنے ملک میں کرپشن کے پیسوں کا حساب کر رہے ہیں کہ 230 ارب روپے کرپشن سے کما کر دہشتگردی پر خرچ ہو رہے ہیں ۔ مگر دوسری طرف ہمیں یہ ادراک نہی ہے کہ ہمارے لوگ منی چینجینگ کے کاروبار میں کس کے آلہ کار بن رہے ہیں۔
ہم دہشتگردی کا سب سے زیادہ شکار ہیں مگر اپنی حماقتوں سے ہم بین الاقوامی ہمدردی حاصل کرنے کے بجائے ہمیشہ شک کے دائرے میں رہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بلدیاتی انتخابات میں کالعد م جماعتیں ،مین سٹیریم سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر الیکشن میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں ۔ اور تو اور اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک مولانا ببانگ دہل علان کرتے ہیں کہ داعش کا جھنڈا جلد دنیا پر لہرائے گا۔ ہمیں اپنے آستینوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
تحریر: واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم