counter easy hit

دہشت گردی، امن عامہ کی نازک صورتحال

Pakistan Terrorism

Pakistan Terrorism

تحریر : عدیل اسلم
”حالت جنگ میں ہیں… پاکستان آرمی چیف” کراچی ائیرپورٹ، واہگہ بارڈر اور بعدازاں آرمی پبلک سکول میں ہونے والا ناقابل یقین سانحہ… یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ پاکستان اس وقت کن لوگوں کے نشانے پرہے ۔ یکے بعد دیگر ے مختلف دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال ہونے والااسلحہ اپنی زبان آپ بتاتاہے کہ میرا رخ اس ارضِ اسلام کی طرف کس نے موڑااورکیوں…ان کے لیے امت مسلمہ کے قتل کی سازشیں اور منصوبے کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ کہاجاتاہے کہ فوج نہیں بلکہ قوم جنگ لڑتی ہے۔ اس حوالے سے یہ بات اس تناظر میں بھی اپنی حقانیت عیاں کرتی ہے کہ دشمنانِ اسلام و پاکستان کاشکار صرف فوج ہی نہیں بن رہی،بلکہ مملکت خدادادبالخصوص اورپوری ملت اسلامیہ بالعموم اس کا شکار ہے۔ 16دسمبر 2014ء …16دسمبر1971ء کی طرح ناخوشگوار رہا۔ملک کے ایک تعلیمی ادارے پر،بلکہ یوں کہیے ، تعلیم پر حملہ ہوا۔ آرمی کی زیرنگرانی ایک سکول جب دشمنوں کے ظلم کا نشانہ بن سکتا ہے توعام تعلیمی ادارے تو ترنوالہ ثابت ہوں گے۔لہٰذا فوری طورپرطلبا کو تین ہفتے کی چھٹیوں پہ گھر بھیج دیاگیاتاکہ سکیورٹی انتظامات پہ نظر ثانی کرکے اور انہیں ”بہتر” بنانے کے بعد تدریسی سلسلہ شروع کیا جائے ۔گستاخی معاف، لیکن اس غیر متوقع ملنے والی تفریح سے تمام طلبا انتہائی ”خوشگوار” حیرت میں مبتلا تھے اورتین ہفتے کیسے گزرگئے،پتہ ہی نہ چلا…طلبا کو ، انتظامیہ کو اورنہ ہی حفاظتی انتظامات کرنے والو ںکو۔ اگر پاکستان کاتعلیمی نظام اورتعلیمی نصاب طلبا کے لیے پرکشش ہوتا تو طلبا اس قدر نازک وقت پرتعلیم کے اس قدر نقصان پہ کبھی بھی بغلیں نہ بجاتے۔ قصہ مختصر یہ کہ ہمیں اپنے تعلیمی نظام اور نصاب کو بہتر بنانے اور اس کو قابل عمل بنانے کے حوالے سے اقدامات کرکے رزق کی تعلیم سے وابستگی ہٹانا ہوگی۔بصورتِ دیگر یہ کہنابے جا ہے کہ چھٹیوں سے تعلیم کا بہت حرج ہوتاہے۔ خیرسے فی الحال نہ ہی تعلیمی نظام یانصاب میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے اورنہ ہی تین ہفتے کی ”نظرثانی” کے بعد بظاہر سکیورٹی اقدامات میں کوئی انقلاب نظر آتا ہے۔ چنددن قبل میڈیانے اس عمل کو Catalyze کرنے کابیڑا اٹھایا اور جاپہنچے لاہورکے ایک مشہور تعلیمی ادارے”یوای ٹی” میں۔ان کی تقلید کرتے ہوئے ایک اور میڈیاچینل کو بھی اس ”فلاحی” کام میں حصہ ڈالنے کی سوجھی اور وہ پنجاب یونیورسٹی (PU) جاپہنچے۔ ”فلاحی” اس لیے کہ پہلے سکیورٹی کی جن کمزوریوں کوڈھونڈنے کے لیے ممکنہ حملہ آوروں کوکتناہی وقت ،سرمایہ لگاناپڑتاتھا، ان کا یہ کام میڈیانے اپنے ذمے لے لیا۔ Catalyze کرنا اس ضمن میں کہ ان پروگرامز کے بعد واقعی میں ان اداروں بالخصوص یوای ٹی لاہور کی سکیورٹی سخت کردی گئی ہے۔

کہاجارہاہے کہ ان 21دنوں کے بعد بھی تادم تحریر 80فیصد تعلیمی اداروں میں مضبوط حفاظتی اقدامات نہیں کیے جاسکے لیکن وزرائے اعلیٰ کو ”سب اچھاہے” کی رپورٹس بھیج کر طلبا کامزید ”تعلیمی حرج” ہونے سے چھٹکارہ پالیاگیاہے ۔یہ سب کرتے ہوئے انتظامیہ کے زیر غور صرف ”تعلیمی حرج” تھا، ”جانی حرج” کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی کہ ”موت تو برحق ہے،جب آنی ہے سو آنی ہے” ان انتظامات کو دیکھ کرا کثروالدین نے اپنی اولاد کو تعلیمی اداروں میں بھیجنے سے انکار کردیاہے اور ان سب کی ”سربراہی” وزیراعظم جناب نوازشریف کی بیٹی مریم نواز نے یہ کہہ کرکی کہ وہ بھی اپنی اولاد کو گھر میں پڑھا لیں گی لیکن کسی تعلیمی ادارے میں نہیں بھیجیں گی۔ حکمران تو عوام کے لیے نمونہ ہوتے ہیں لیکن ہمارے حکمران اپنی اولاد کے لیے توسکیورٹی اقدامات کو ناقابل تشفی قرار دے رہے ہیںلیکن عوام کی اولاد کی انہیں کوئی پرواہ نہیں۔اس سب کے بعد یہ کہنا بنتاہے کہ ہمارے حکمران واقعی”نمونہ” ہیں۔ دوسری طرف اس صورتحال سے کاروباری حضرات نے فائدہ اٹھاناشروع کردیاہے۔ سکیورٹی آلات کی قیمتیں”پاکستانیوں کی جان کی قیمت” پہ بھی غالب آگئیں ہیں۔پہلے جو سکیورٹی (CCTV)کیمرہ1500میں مل رہاتھا،سانحۂ پشاور کے بعد 2500سے 3500 روپے میں دستیاب ہے۔ ایں خانہ تمام آفتاب است حکومت وقت کو اپنی انتظامی صلاحیتوں میں بہتری لانی ہوگی جس کے لیے ”ان کیمرہ” ورکشاپس منعقد کروائی جائیں تاکہ کوئی اپنی صلاحیتیں بہترکرنے کی بجائے ”نیند”پوری کرتا نہ دکھائی دے۔ سکیورٹی کے اقدامات بہترکرنے کے حکم کے ساتھ ساتھ حکومت کو قیمتوں پہ بھی قابوپاناچاہیے اورسکول انتظامیہ کو سبسڈی مہیا کرنی چاہیے۔ سکیورٹی کے لیے حکومت کے کیے جانے والے اقدامات: حکومت کی جانب سے تمام سرکاری اورنجی تعلیمی اداروں کو یہ نوٹس جاری کیا گیا تھاکہ وہ اپنے اپنے تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کے اقدامات کو مکمل کریں۔ یہ حفاظتی اقدامات مندرجہ ذیل ہیں۔
-1 بیرونی دیواریں اونچی کرنا۔
-2 ان پر خاردار تاریں لگانا۔
-3 محافظ رکھنا۔
-4 واک تھروگیٹس
-5 میٹل ڈیٹیکٹر
-6 سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنا
-7 NCCکا دوبارہ آغاز

علاوہ ازیں متعدداداروں کی سکیورٹی نجی کمپنیوں کے سپرد کردی گئی ہے۔ اقدامات کاجائزہ: 31فیصد سرکاری سکول ایسے ہیں جن کی کوئی بیرونی دیوار ہی نہیں، لہٰذا پہلے دیواریں بنوائی جائیں پھر اونچی کروائی جائیں ۔دیواریں اونچی کرنے والا فیصلہ کافی حدتک دل کولگتاہے کہ اس کے بعددہشت گرددیوار پھلانگ کر تعلیمی ادارے میں نقب نہیں مار سکیں گے۔اس میں تھوڑا سقم موجود تھا، لہٰذا اسے دور کرنے کے لیے خاردار تاروں کاانتظام بھی مناسب ہے۔ جو سکیورٹی گارڈ ہمارے تعلیمی اداروں کے باہر کھڑے نظر آتے ہیں ،ان کو دیکھ کرتویہی خیال آتاہے کہ اگر کوئی مسئلہ (خدانخواستہ) آن پڑا تو طلبا نے ہی ان کی بھی حفاظت کرنی ہے،کیونکہ اول تووہ زندگی کی ان منازل کو طے کرچکے ہوتے ہیں کہ جہاں سکیورٹی والا کام ان کو سونپا جاسکے۔بعدازاں ان کی تربیت بھی اس طرح کی نہیں ہوتی کہ وہ دہشت گردوں کامقابلہ کرسکیں۔ علاوہ ازیں ان کے پاس موجودا سلحہ بھی انہی کی طرح”جوانی” گزار چکاہوتاہے۔نجی کمپنی کو حفاظت سپرد کردینے سے ان گارڈز کی پھرتی میں کوئی” ابال” آتا ہے یا نہیں،یہ تو حالات ہی بتائیں گے لیکن فی الوقت حکومت کو ان کمپنیوں پہ نظررکھنی پڑے گی اورسرکاری گارڈز کی تربیت کا بھی انتظام وانصرام کرناپڑے گا۔ باقی رہ جانے والے اقدامات کے لیے یقینا بجلی کا ہونا ضروری ہے اور 45فیصد سرکاری سکولوں میں بجلی کا کوئی ”وولٹ”موجود نہیں۔سی سی ٹی وی کیمرے ہمیشہ ”رات” کا نظارہ ہی دکھائیں گے۔ سرکاری سکولوں کو احکامات توجاری کردیے گئے ہیں لیکن ان کے لیے کوئی فنڈز مختص نہیں کیے گئے بلکہ یہ ہدایات کی گئی ہیں کہ فروغ سکول فنڈ،جو20روپے ماہانہ فی بچہ ہے،تعمیر ومرمت کافنڈ،جو20ہزار روپے فی سکول سالانہ ہے،ان سے یہ اخراجات پورے کیے جائیں جو انتہائی ناکافی ہیں ۔ یہ فنڈز پہلے ہی مختلف مدوں میں خرچ ہورہے ہیں۔

علاوہ ازیں اس تمام صورتحال پہ آغا مسعود خان نے حساب و کتاب کی زبان میں بڑا خوبصورت تجزیہ پیش کیاہے : ”ایک واک تھروگیٹ کی قیمت ایک لاکھ پینتالیس ہزار سے لے کر دولاکھ روپے تک ہے۔اگرپنجاب کے تمام تعلیمی اداروں میں (سرکاری)واک تھروگیٹ لگائے جائیں تواس کی لاگت تقریباً آٹھ ارب روپے بنتی ہے۔ جن سکولوں کی دیواریں موجود نہیں،وہ بنائی جائیں توساڑھے چار ارب روپے چاہئیں۔ موجودہ دیواریں بلند کرنے کا خرچہ اڑھائی ارب روپے سے زیادہ ہے۔ خار دار تاروں کا خرچہ بھی پونے دوارب کے لگ بھگ ہے۔ یہ صرف موٹا موٹا خرچہ ہے۔ واک تھروگیٹ کے علاوہ میٹل ڈیٹیکٹروں کا خرچہ بھی تیس کروڑ سے زائد ہے۔ صرف انہی چند خرچوں کا ٹوٹل 17ارب روپے سے زیادہ بنتاہے جبکہ واک تھرو گیٹس اور سٹیل ڈیٹیکٹر زکو ہینڈل کرنے کے لیے سٹاف علیحدہ سے رکھاجائے گا جس کی تنخواہ وغیرہ ایک علیحدہ خرچہ ہے۔ ان سارے معاملات کی سالانہ Running Cost ایک بہت بڑا خرچہ ہے جومحکمہ تعلیم کے بجٹ سے خرچ کیاجائے تو حال یہ ہوگا کہ تعلیمی معاملات جو پہلے ہی دگرگوں ہیں ،مکمل تباہ ہوجائیں گے ۔مزے کی بات یہ ہے کہ 17ارب روپے کے اس فوری خرچے کے مقابلے میں پنجاب حکومت نے جوکل بجٹ منظور کیا،وہ محض 2ارب روپے ہے۔ یعنی ضرورت کا صرف پونے 12 فیصد۔ اسی سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ حکومت کے منصوبوں اور عملی اقدامات میں کیا نسبت ہے۔”

NCCکااجرائ: NCCنیشنل کیڈٹ کورپس (National Cadet Corps)کامخفف ہے۔ یہ کورس ماضی میں پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں میں بھرپور جذبے کے ساتھ جاری وساری تھا لیکن 2002ء میں اس کا خاتمہ کر دیا گیا ،کیوں؟ اس کاجواب معلوم نہیں ہوسکا۔ آج طلباکو نشانہ بنایاگیا ۔تب حکومت کواحساس ہوا کہ اگر طلبا کواسلحہ چلانا آتا ہوگا اور سیلف ڈیفنس تکنیک سے آگاہی ہوگی تووہ اپنا بچاؤ خود کرسکیں گے، جبکہ یہی بات”اخبارِ طلبا” گزشتہ کئی سالوں سے باورکروانے کی کوشش کررہا ہے۔ صرف اعلان کرنے کاکوئی فائدہ نہیں ہو گا ۔اسے پورے ملک کی سطح پہ پھیلانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی تاریخ اس بات کی بھی گواہی دیتی ہے کہ جب تک سکولوں اور کالجوں میں NCC کورس کروایاجاتارہا، طلبا پاکستان اور نظریہ پاکستان سے بخوبی واقف رہے اور مملکت خداداد پرجان دینے تک سے گریز نہیں کیاکرتے تھے لیکن آج وہ جذبہ مفقود ہے۔لہٰذا یہNCC شروع کرانا ایک مستحسن قدم ہے جس کو سراہا جاناچاہیے۔ جب قوم جنگ لڑرہی ہو توضروری ہے کہ قوم ہر سطح پر دفاع کامکمل انتظام کرے۔پاکستان توکافی عرصے سے دہشت گردی کاشکارہے، لہٰذا طلبا کو NCCکورس کرواناناگزیر تھا اور اس کافیصلہ بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا پاکستان کے حکمران اگرقرآن و حدیث سے رہنمائی لے رہے ہوتے توNCCکبھی بھی رکنے نہ پاتا اور نہ ہی سانحۂ پشاور جیساہولناک سانحہ اتنی تباہی لاتا کیونکہ اسلام میں دفاع کو بہت اہمیت حاصل ہے۔
وَأَعِدُّوْا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ
(الانفال:60)
فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْکُفْرِ۔(التوبہ:12)
اور
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آَمَنُوا خُذُوْا حِذْرَکُمْ
(النسائ:71)

قرآن مسلمانوں کوجنگی تربیت حاصل کرنے کی تلقین کررہاہے۔ طلباکو بھی چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو ہر وقت جنگ کے لیے تیار رکھیں اور اس کی تربیت حاصل کریں تاکہ اسلام او ر پاکستان کادفاع بھرپور طریقے سے کیاجاسکے۔ دفاع مضبوط رکھنااور تربیت حاصل کرنا تو تب بھی لازمی ہے جب حالات پرامن ہوں اور فی الحال تو اس کی اہمیت کئی گنابڑھ گئی ہے کیونکہ
حالت جنگ میں ہیں:آرمی چیف

تحریر : عدیل اسلم