جب نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کور کمانڈرز کانفرس کی صدارت کریں گے تو سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی صدارت میں ہونے والی آخری کور کمانڈرز کانفرنس میں جو افسران موجود تھے، ان کے علاوہ اب کانفرنس میں کئی نئے چہرے بھی موجود ہوں گے۔
نئے آرمی چیف کو بڑے پیمانے پر فوجی عہدوں پر نئی تقرریاں کرنے میں سہولت سبکدوش ہونے والے چیف نے فراہم کی، جنہوں نے اکتوبر/نومبر میں کئی سینیئر افسران کی ترقیاں اور تقرریاں ملتوی کر دیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ جنرل راحیل شریف نے یہ آپشن استعمال کیوں نہیں کیا۔ ان سے قبل دونوں آرمی چیف، ریٹائرڈ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور پرویز مشرف اپنی مدت کے آخری ہفتوں میں ایسا کر چکے ہیں۔
شاید یہ ان کی جانب سے نئے آرمی چیف کی عزت افزائی کے لیے ہو، یا شاید اس لیے کہ آخری ہفتوں میں بطور آرمی چیف ان کے ذہن میں دوسری چیزیں موجود تھیں، مثلاً عہدے میں توسیع کی قیاس آرائیاں اور پنجاب میں عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے معاملے پر سول عسکری تناؤ کے بارے میں خبر پر حکومت کے ساتھ کھلے عام تنازع۔
خیر جو بھی ہو، یہ واضح ہے کہ اس فیصلے نے نئے آرمی چیف کو ابتدا سے ہی اپنی من پسند ٹیم تشکیل دینے میں مدد دی، اگرچہ یوں ضرور محسوس ہوا کہ جنرل باجوہ نے اپنی جانب سے کی جانے والی تمام تبدیلیوں پر غور فکر میں ہفتے سے 10 دن تک کا وقت لیا۔
اب جب وہ کور کمانڈرز کانفرنس کی صدارت کریں گے تو اعلیٰ ترین فوجی افسران میں ان کی جانب سے مقرر کردہ چیف آف جنرل اسٹاف، آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل، اور پشاور، راولپنڈی، ملتان، بہاولپور اور کراچی کے نئے کور کمانڈرز بھی ہوں گے۔
پہلے سے مقرر کردہ اور اب تک عہدوں پر فائز کور کمانڈرز میں، منگلا، گجرانوالہ، لاہور اور کوئٹہ کے کورکمانڈرز ہوں گے۔ کور کمانڈر کوئٹہ کو کمانڈر سدرن کمانڈ کہا جاتا ہے۔
موجودہ کمانڈر سدرن کمانڈ چیف آف جنرل اسٹاف کے عہدے کی دوڑ میں سب سے اول دکھائی دے رہے تھے، مگر شاید ایک سال قبل منظرِ عام پر آنے والی ان کی علالت آڑے آ گئی ہو، جس کی وجہ سے ان پر اضافی بوجھ نہیں ڈالا گیا۔