بھارت میں کوئی کبوتر چلا جائے تو سوال ا ٹھتا ہے کہ یہ کہاں سے آ یا، جواب آتا ہے، پاکستان سے ا ور یہ بھی کہ یہ دہشت گرد کبوتر ہے۔
بھارت میں سمجھوتہ ایکسپریس کو دھماکے سے آگ لگا دی جاتی ہے، سوا ل ا ٹھتا ہے کہ اس دھماکے اور آتش زنی میں کون ملوث ہے۔ جوا ب آتا ہے کہ پاکستان کی آئی ایس آئی اس میں ملوث ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس دھماکے میں بھارت کاٰ حاضر سروس فوجی کرنل گرفتار ہو جاتا ہے مگر پاکستانی میڈیا کے لئے یہ خبر کوئی اہمیت نہیں رکھتی، نہ کوئی ا س کا فالو اپ دینے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
ممبئی میں طویل مقابلہ ہوتا ہے، ایک ریلوے سٹیشن، ایک ہوٹل اور یہودیوں کی عبادت گاہ نشانہ بنتی ہے، اس میں وہ تفتیشی افسر بھی ماراجاتا ہے جو سمجھوتہ ایکسپریس کی تحقیقات پر مامور ہے۔ سوال ا ٹھتا ہے کہ یہ کس کی کارستانی ہے، جواب ملتا ہے کہ پاکستان کی لشکر طیبہ، اس کے سربراہ حافظ محمد سعید اوران کے ایک نائب ذکی الرحمن لکھوی۔ پاکستان میں ان افراد کو نظر بند کر دیا جاتا ہے، ان پر مقدمے چلتے ہیں، کسی عدالت میں ان کے خلاف کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا جاتا، جس پر انہیں رہا کر دیا جاتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ حافظ سعید ایک بار پھر نظربند ہیں، ساتھ ہی ان کے تین ساتھی بھی۔
پٹھان کوٹ کے بھارتی ایئر بیس پر واردات ہوتی ہے، سوال ا ٹھتا ہے کہ اس کے پیچھے کون ہے، جواب ملتا ہے کہ پاکستان کے مولانا مسعود اظہر جو بذات خود ٹیلی فون پر دہشت گردوں کو ہدایات دے رہے تھے۔ دہشت گردوںنے دریائے راوی کو پار کیا اور پھر بڑے سکون کے ساتھ کارروائی کی۔
مگر پاکستان کے چیئر نگ کراس پر دہشت گردی ہوئی، ہمارے سیف سٹی کے کیمرے اندھے ہو گئے، عام سی سی ٹی وی کیمرے بھی بے کار نکلے، اسلئے ہم یہ گویڑ لگانے کے قابل بھی نہ رہے کہ یہ سانحہ کیسے رونما ہوا۔ اور ہمیں اس سے کوئی غرض بھی نہیں، بس مرنے والوں کے لواحقین کو ایک کروڑ کے چیک تھما دیئے۔
اب لال شہباز قلندر کی درگاہ میں نماز مغرب کے دوران دھماکہ ہو گیا، مگر یہ بتانے والا کوئی نہیں کہ یہ شیطانی حرکت کس نے کی، ایک ٹی وی چینل پر کہا جا رہا ہے کہ سندھ حکومت نے مدرسوں کے خلاف وہ کارروائی نہیں کہ جو نیشنل ایکشن پلان کا تقاضہ ہے، آواران میں فوجی شہید ہو گئے، پشاور میں جج کی جیپ کو نشانہ بنایا گیا۔ مہمند میں آٹھ افراد کو شہید کر دیا گیا، چار دن اور آٹھ وارداتیں، جیسے پاکستان فری فارآل ہو اور دھماکوں کا ایک سلسلہ ہے جس نے عام پاکستانیوں کو چکر ادیا ہے، ہو سکتا ہے، حکمرانوں کو ان دھماکوں کے اسباب کا علم ہو، اسلئے ان کی پریشانی سامنے نہیں آ سکی۔ بس روایتی بیانات کہ نہیں چھوڑیں گے، کس کو نہیں چھوڑیں گے، اس کا انہیں کوئی علم نہیں۔
سچے جذبوں والے جرنیل محمد جاوید نے کہا ہے کہ ہم ہر دھماکے کی خبر نشر کرتے ہوئے ساتھ ہی یہ کیوںنہیں کہتے کہ یہ بھارت کی کارستانی ہے، زیادہ سے زیادہ ہماری حکومت نے افغانستان سے کہا ہے کہ وہ جماعت الاحرار کو کنٹرول کرے تاکہ وہ پاکستان میں دہشت گردی نہ کر سکے، جی ایچ کیو نے افغان سفارت کاروں سے کہا ہے کہ فلاں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرو۔ میں حیران ہوں کہ اگر ہمیں اپنے ہاں دہشت گردی روکنے کے لئے افغان حکومت سے اپیل کی حاجت محسوس ہو گئی ہے تو پھر دہشت گردی کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، افغانستان کی کیا مجال، کیا پدی، کیا پدی کا شوربہ کہ وہ پاکستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی سوچ بھی ذہن میں لا سکے۔ افغانستان کی سرزمین کا استعمال ہونا اور بات ہے مگر افغان حکومت یا ریاست کاا ستعمال ہونا اور بات ہے۔
ہمیں یہ کون سمجھائے گا کہ جس طرح بھارت اپنے ہاں ہر دہشت گردی کا الزام فوری پر پاکستان پر دھر دیتا ہے، اسی طرح ہم بھی اپنے ہاں قیامت برپا ہوتے ہی یہ چیخ و پکار کیوں نہیں شروع کر دیتے کہ یہ بھارت کی شرارت ہے اور ہمیں کوئی ثبوت فراہم کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ بھارتی وزیراعظم مودی خود دھمکی دے چکاہے کہ وہ بلوچستان، گلگت اور آزاد کشمیر میں کارروائی کرے گا، ایک بھارتی وزیر کہہ چکا ہے کہ سندھ کے بغیر بھارت کا نقشہ مکمل نہیں، بھارتی وزیر دفاع کہہ چکا ہے کہ پاکستان کے خلاف کارروائی کے لئے وقت ا ور مقام کا تعین ہم خود کریں گے، بھارت نے یہ بھی کہا کہ ایک سرجیکل اسٹرائیک کی ہے، اسی طرح کی سرجیکل اسٹرائیک اور بھی کریں گے۔ بھارت کے وزیراعظم کی یہ دھمکی بھی ریکارڈ پر ہے کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔
کیا ہم نے کبھی غلطی سے بھی بھارت کوکوئی دھمکی دی، ایک دھمکی بھٹو نے دی تھی کہ کشمیر کے لئے ہزار سال تک جنگ کریں گے،اسے ہم نے اپنے ہاتھوں پھانسی دے کر اس قابل نہ چھوڑا کہ وہ بھارت کے ساتھ ہزار سال تو کیا، ایک لمحے کے لئے بھی جنگ کر سکے۔ بھٹو کی بیٹی نے کنٹرول لائن پر دوپٹہ لہراتے ہوئے نعرہ لگایا تھا: آزادی! آزادی، آج یہ نعرہ کشمیریوں کا نعرہ بن چکا ہے مگر بھٹو کی بیٹی کو پنڈی کے چوک میں شہید کر کے ان نعروں کی آواز میں آواز ملانے کے قابل نہ چھوڑا گیا۔
دوسری طرف بھارت دھمکیوں پہ دھمکیاں دیتا ہے اور ہم انہیں نظر انداز کئے جا رہے ہیں، ہم اپنے آپ کو بیوقوف بنانے کے لئے دہشت گردی کی قیامت کا الزام یا تو افغانستان پہ لگا دیتے ہیں یا افغان مہاجرین پر سختیاں شروع کر دیتے ہیں یا پھر اپنے ہاں کے دینی مدرسوں پر غصہ جھاڑتے ہیں۔ اس سے آگے ہمارا ذہن کام نہیں کرتا، بھارت کانام لینے سے ہماری زبان پر لکنت طاری ہو جاتی ہے۔ جبکہ بھارت اپنے ہاں ہر واقعے کی ذمہ داری چند منٹ میں پاکستان پر ڈالتا ہے، ممبئی حملوں کی وضاحت کے لئے تو اس نے ہمارے آئی ایس آئی چیف کو طلب کر لیا تھا اور ہمارے بھولے بادشاہ یوسف رضا گیلانی نے انہیں بھارت جانے کا حکم بھی دے دیا تھا، یہ تو ہماری غیرت جاگ گئی کہ پوری قوم نے وزیراعظم کے فیصلے کی مخالفت کی۔
بھارت کیا کرتا ہے ، ہمیں کیا کرنا ہے۔ یہ جائزہ لئے بغیر ہم دہشت گردی اور آبی جارحیت جیسی قیامتوں کا سامنا نہیں کر سکتے، بھارتی وزیراعظم نے جب یہ کہا کہ میرا آرمی چیف بیان نہیں دے گا، ایکشن کرے گا تواس بیان نے میرا سینہ چیر کر رکھ دیا تھا۔ سابق یا موجودہ آرمی چیف ہر دہشت گردی کے بعد کیا بیانات دیتے رہے، مجھے ان کو دہرانا مقصود نہیں، فوج پر تنقید صرف بھارتی وزیراعظم ہی نہیں کرتا، ہم میں سے بیشتر اس تنقید میں بازی لے جانے کی کوشش کرتے ہیں، کوئی پوچھتا ہے کہ اگر راحیل شریف نے دہشت گردوں کو ختم کر دیا تھا تو یہ نئے دہشت گرد کہاں سے آ گئے، ایک بیماری کا علاج ہو جائے تو پھر یہی بیماری دوبارہ کیسے پھوٹی، ابھی ایک ٹی وی چینل پر کوئی صاحب فرما رہے تھے کہ ہمارا میڈیا راحیل شریف کے بیانات اور کارناموں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا رہا، اس شور شرابے میں یہ پتہ نہیں چلتا کہ تنقید کا رخ سابق آرمی چیف کی طرف ہے یا اس کی زد میں نئے فوجی سربراہ کو بھی لیا جا رہا ہے۔
میرے خیال میں ہمیں فیصلہ یہ کرنا ہے کہ ہم نے آپس میں سر پھٹول کرنی ہے یا آئے روز لاشیں گرانے والوں کے خلاف بھی کچھ کرنا ہے۔ کوئٹہ کے لئے ایک کمشن بنایا گیا تھا۔ کیا ایک کمیشن لال شہباز اور چیئرنگ کراس کے لئے بھی بنانا مقصود ہے۔یہ ایک ایسا سوال ہے جس سے یہ جواب مل سکتا ہے کہ کہیں ہم خود ہی ایک دوسرے سے برسرپیکار تو نہیں اور کیا میرے جیسے لوگ بھارت کو ناحق بدنام کر رہے ہیں؟
بشکریہ : اسد اللہ غالب : نوائے وقت