تحریر: قاضی کاشف نیاز
عراق’ شام اور اب یمن میں گزشتہ کچھ عرصہ سے حوثی اور داعش وغیرہ کے انتہا پسند دہشت گرد تیزی سے سر اٹھا رہے تھے اور خطرہ تھا کہ وہ حرمین شریفین کی سرزمین کو بھی اپنی دہشتگردانہ سرگرمیوں کی لپیٹ میں لے لیں گے۔ عالم اسلام کے قائد سعودی عرب نے اس حساس صورتحال پر پوری دنیا کو متوجہ کرنے کی کوشش کی لیکن امریکہ سمیت اکثر مفاد پرست ممالک نے عراق’ شام کی طرح یمن کی بدلتی صورتحال کا بھی کوئی نوٹس نہ لیا کیونکہ امریکہ اور اس کے پروردہ ممالک کے نزدیک دہشت گردی وہی ہوتی ہے جس سے صرف انہیں خطرہ ہو… شام میں بھی سعودی عرب نے بارہا توجہ دلائی کہ شامی ڈکٹیٹر بشار الاسد اپنے باپ حافظ الاسد کی طرح وہاں کی لاکھوں عوام کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہاہے اور ان کی بستیوں کی بستیاں کھنڈر بنادی گئی ہیں لیکن کسی طرف سے شام کو روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ ہوئی’ اس کے نتیجے اور رد عمل میں داعش جیسا زیادہ انتہا پسند گروہ سامنے آگیا۔
انہی خطرات کے ازالے کے لئے سعودی عرب یمن کی صورتحال کا بھی سنجیدگی سے نوٹس لیتا رہا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ خود یمنی صدر عبدربہ منصور ہادی نے اقوام متحدہ اور عرب ممالک سے فوری مداخلت کی اپیل کی کیونکہ باغی یمنی دارالحکومت صنعا پر قابض ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ اب وہ عدن سے سعودی عرب کی طرف بھی بڑھ رہے تھے چنانچہ یمنی صدر کی اپیل پر سعودی عرب نے فوری طور پر باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کردی اور اس لحاظ سے یہ یمن کے داخلی حالات میں مداخلت یا جارحیت نہیں کیونکہ یہ خود یمنی صدر کی اپیل پر ہو رہا تھا۔ اور سعودی عرب و حرمین کی سلامتی کو بھی شدید خطرہ لاحق تھا۔اب جوثیوں کے لیڈرعبدالمالک حوثی نے حرمین پرحملے کی واضح دھمکی دے کر اپنے حد درجہ انتہاپسندانہ ،دہشت گردانہ بلکہ انتہائی کفریہ عزائم واضح کردیے ہیں جس کاکوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا۔ ان حالات میں سعودی عرب نے اپنے دیرنیہ دوست پاکستان سے بھی ہنگامی مدد کی اپیل کی جس کے جواب میںپاکستان کی سول اور عسکری قیادت نے متفقہ طور پر اپنے قریب ترین دوست ملک کو آزمائش کی گھڑی میںمایوس نہ ہونے دیا اور سعودی عرب و حرمین کے دفاع کے لئے اپنے تمام وسائل فوراً حاضر کر دیئے۔
سعودی عرب پاکستان کے ساتھ ہمیشہ ہر مشکل میں کھڑا رہا اور اپنے خزانوں کے منہ پاکستان کے لئے ہمیشہ کھولے رکھے۔ پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تو اس وقت ملک شدید ترین مالی بحران کی زد میں آرہا تھا لیکن سعودی عرب جیسے مخلص دوست نے پاکستان کی ہر طرح کی مدد کی او رپانچ سال سے زائد عرصے تک پاکستان کو مفت تیل مہیا کرتا رہا۔ابھی چندماہ پہلے پاکستان کی گرتی ہوئی معاشی صورتحال کے پیش نظر سعودی عرب کی طرف سے ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ دیاگیا جس سے پاکستان کی معیشت فوری طورپر سنبھل گئی ۔لوگوں کے چولہے ٹھنڈے ہونے سے بچ گئے اور اس کے نتیجے میں آج کتنی ہی چیزوں کے ریٹ بھی پہلی بار کم ہورہے ہیں۔شاہ فیصل شہید کے دورسے پہلے اور اب تک مسلسل سعودی احسانات محض نواز حکومت تک محدود نہیں رہے۔
سعودی نوازشات کی بارش ہر دور میں جاری رہی’اس لیے یہ کہنا حددرجہ ناانصافی اورزیادتی ہے کہ سعودی عرب کاصرف نوازحکومت سے خصوصی تعلق ہے۔سعودی نوازشات کی مثال پاکستان کا کوئی اور دوست ملک پیش نہیں کر سکتا تو اب جب سعودی عرب پر مشکل وقت آیا تو ہمیں بھی احسان کا بدلہ احسان سے ہی دینا چاہئے تھا بلکہ ایسے مخلص دوست کے ساتھ ہمارا تعاون احسان نہیں’ فرض کا درجہ رکھتا ہے۔ اور پھر ایسا ملک جہاں ہمارے عقیدہ و ایمان کے مراکز حرمین شریفین ہوں ‘ ان کی حفاظت تو ہمارے ایمان کا اولین تقاضہ ہے۔ ایسے ہی مواقع پر دوست اور دشمن یا مفاد پرست کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ہم نے مفاد پرست اور موقع پرست کا کردار ادا نہ کرکے اچھا کیا جبکہ امریکہ جو بظاہر جس کا دوست ہونے کا دعویٰ کرتا ہے’ اس کو ہمیشہ نقصان پہنچاتا ہے اور جس کا دشمن ہونے کا اعلان کرتا ہے’ اسے عملاً کوئی گزند نہیں پہنچتی۔
یہی مثال امریکہ کی سعودی عرب کے حوالے سے ہے۔ شام کی طرح یمن کی جنگ میں بھی بظاہر امریکہ سعودی عرب کی حمایت کر رہا ہے لیکن وہ عملاً اس جنگ سے دور ہے بلکہ ایسے شواہد زیادہ ہیں کہ اس نے حوثی باغیوں اور دوسرے انتہا پسند گروہوں کو اعلی ترین بھاری ہتھیار اور طیارے تک دیئے ہیں جن کی مدد سے باغی یمن کے دارالحکومت پر قابض ہونے میں کامیاب ہوئے۔ یہ امریکہ ہی ہے جوبظاہر دوست ہوکر سعودی عرب کو وہابیت کاطعنہ دے کر خوب پراپیگنڈہ کرتاہے اورپوری دنیامیں عالی شان مساجد کے قیام اور اسلام کے پھیلاؤ کی سعودی کوششوں کووہابیت کے پھیلاؤ کانام دیتاہے اورانہیں دہشتگ رد اورانتہاپسند قراردیتاہے۔امریکہ کاکردار صرف مسلمانوں کو باہم لڑانے کاہے۔اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
اس موقع پر ہم ایران سے بھی گزارش کریں گے کہ وہ محض مسلکی تعصب میں اپنے ہم مسلک حوثی شیعہ قبائل کی عسکری مدد کرنا چھوڑ دے۔ ایران کی مختلف مسلم ممالک میں پراکسی وار کی وجہ سے ہی خطے میں فرقہ وارانہ ماحول پید اہوا ہے۔ اسی نے یہ حالات پیدا کئے ہیں اور وہی اب اصلاح کے لئے بڑا کردار ادا کرے اور یہ بات یاد رکھے کہ ایران کی طرف سے ہر مسلم ملک میں محض اپنے ہم مسلکوں کی اندھا دھند مدد سے عالم اسلام میں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ یہی دشمنان اسلام کی خواہش ہے کہ مسلمان آپس میں لڑیں’ ان کے باہمی وسائل تباہ ہوں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ انتہا پسندوں اور دہشتگردوں کے خلاف تمام مسلم ممالک متحد ہوں چاہے ان کا تعلق سنیوں سے ہو یا شیعہ سے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سوچنے سمجھے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
تحریر: قاضی کاشف نیاز