واشنگٹن (ویب ڈیسک )کابل کے ایک مذہبی اجتماع پر دہشت گرد حملے کے حوالے سے، جس میں کم ازکم 55 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے، افغان صدر اشرف غنی نے اپنی ٹویٹس میں، نام لیے بغیر اس کا الزام یہ کہتے ہوئے ایک ہمسایہ ملک پر لگایا کہ وہ دہشت گردوں کو انفراسٹرکچر فراہم کرتا ہے۔ صدر غنی کی ٹویٹس میں کہا گیا ہے کہ خودکش حملوں کے لیے پناہ گاہیں، امدادی انفراسٹرکچر، تربیتی مراکز اور مالی وسائل، وہ سب ایک ہمسایہ ملک میں موجود ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وہ ہمسایہ ملک کا نام نہیں بتا رہے لیکن ماضی میں افغانستان, پاکستان پر افغان مخالف عسکری گروپوں، خاص طور پر طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو پناہ گاہیں فراہم کرنے کاالزام عائد کر چکا ہے۔اپنی ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ ہماری تاریخ می، حتی کہ تاریک ادوار میں بھی، علما کے خلاف، پیغمیر اسلام کے یوم ولادت کے خلاف اور اسلام کے خلاف ، کبھی اس طرح کے بزدلانہ اور سفاکانہ حملے نہیں ہوئے۔جب کہ افغانستان کے سی ای اور عبداللہ عبداللہ نے ایک ٹویٹ میں حملے کا الزام ایران پر لگایا ہے۔صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ دو دن پہلے، افغانستان کے دشمنوں نے تمام اخلاقی اور اسلامی اقدار کو پامال کرڈالا۔ انہوں نے ہماری روایات اور قومی شناخت پر حملہ کیا۔اسی سلسلے افغان صدر کا کہنا ہے کہ جو خودکش حملے ہمارے ملک میں لائے تھے، اس حملے کے ذمہ دار ہیں۔ طالبان صرف اس حملے کی مذمت کر کے خود کو اس سے بری الزمہ قرار نہیں دے سکتے۔ انہیں افغانوں، مسلمانوں اور انسانوں کو ہلاک کرنے کا سلسلہ یکسر ختم کرکے امن کی جانب عملی اقدامات کرنے چاہییں۔ خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ طالبان نے افغان دارالحکومت کابل میں خودکش دھماکوں میں کسی تعلق سے انکار کیا ہے۔ اس حملے میں کم ازکم 55 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔امریکی چینل اے بی سی نیوز کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے منگل کو رات گئے اپنے ایک بیان میں اپنے گروپ کی جانب سے عام شہریوں کے مذہبی اجتماع پر حملے کی مذمت کی۔ یہ حملہ کا بل کے ایک شادی ہال میں ہونے والی ایک مذہبی تقریب میں ہوا جہاں سینکڑوں لوگ جمع تھے۔اس سے قبل داعش سے منسلک گروپ شیعہ اقلیت اور امریکی حمایت یافتہ حکومت کے حامیوں کے خلاف بڑے پیمانے کے ہلاکت خیز حملے کرتے رہے ہیں۔افغانستان کی وزارت صحت کے ایک ترجمان واحد مجروع نے بدھ کے روز بتایا کہ مذہبی اجتماع پر حملے میں 55 افراد ہلاک اور 94 زخمی ہوئے۔ایک اور ٹویٹ میں صدر غنی نے کہا ہے کہ خودکش حملوں کے لیے پناہ گاہیں، امدادی انفراسٹرکچر، تربیتی مراکز اور مالی وسائل، وہ سب ایک ہمسایہ ملک میں موجود ہیں۔ ہم اپنے بین الاقوامی دوستوں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ حکومت اور ملکوں کی نشاندہی کریں جو افغانستان میں دہشت گرد کارروائیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ طالبان اور داعش سے منسلک گروپ دونوں ہی افغان حکومت کا تختہ الٹ کر وہاں اپنے نظریات سے مطابقت رکھنے والا سخت اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم دونوں گروپس میں قیادت، نظریات اور حکمت عملی پر گہرے اختلافات ہیں۔طالبان عموماً سیکیورٹی فورسز اور حکومتی عہدے داروں کو اپنا ہدف بناتے ہیں جب کہ داعش کے لوگ فرقے کی بنیاد پر عام شہریوں پر حملے کرتے ہیں۔داعش نے جون میں کابل میں افغان علما کونسل کے ایک اجلاس میں خودکش بمبار بھیجنے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعوی کیا تھا جس میں 7 افراد ہلاک اور 20 کے لگ بھگ زخمی ہو گئے تھے۔ اس کونسل نے امن مذاکرات میں شامل ہونے کی اپیل کرتے ہوئے خودکش حملوں کے خلاف فتوی جاری کیا تھا۔داعش نے کہا تھا کہ اس نے ظالم مذہبی لیڈروں کو ہدف بنایا جو امریکی حمایت یافتہ حکومت کی طرف داری کرتے تھے۔ طالبان نے جون میں ہونے والے مذہبی لیڈروں پر حملے سے بھی لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔