تحریر: سید انور محمود
ملک میں دہشتگردی کا کتنا بھی بڑا واقعہ ہو جائے آج کی سیاست میں سب سے پہلے منافقت کا یہ سبق یاد رکھا جاتا ہے کہ کہیں ہمارے سیاسی بیان سے، ہمارئے لکھنے سے یا میڈیا پر کچھ کہہ دینے سے دہشتگردوں کا کوئی گرو ہ ناراض نہ ہوجائے۔ سولہ دسمبر کے سانحہ پشاور کے فورا بعد ہمارئے سیاستداں نواز شریف، عمران خان، مولانا فضل الرحمان، سراج الحق اور دوسرئے کے ساتھ ساتھ لال مسجد کا دہشتگرد مولانا عبدالعزیز سانحہ پرافسوس کررہے تھے۔ ایک ٹی وئی چینل کا بھانڈ نما مسخرا سہيل احمد عرف عزيزی اور اُسکا ساتھی اینکر جنيد سليم جو ایک دن پہلے تک طالبان اور ديگر مذہبی جنونيوں کو ناراض بچہ کہتے تھے اُس رات انتہائی جعلی قسم کے تاثرات کے ساتھ پشاور کے شہيد بچوں کے لیے غمزدہ شاعری سنارہے تھے، ان مسخروں کے علاوہ طالبان اور نواز شریف کے دسترخوان سے راتب لینے والے انصار عباسی، اوريا مقبول جان، ڈاکٹر شاہد مسعود، شاہين صہبای، جاويد چوہدری، اور عطاالحق قاسمی اپنی پوری منافقت کا مظاہرہ کررہے تھے اور پشاور سانحہ کی مذمت کررہے تھے۔یہ سارئے منافق مگرمچھ کی طرح آنسوں بہارہے تھے لیکن اشارئے کنارئے سے طالبان دہشتگردوں کے حق میں تاولیں بھی دئے رہے تھے، یہ عام لوگوں کے جذبات کی آگ ٹھنڈی ہونے کے انتظار میں تھے تاکہ ملنے والے راتب کا حق ادا کرسکیں اور اب یہ ایسا ہی کررہے ہیں۔
پشاورمیں دہشتگردوں نے 132ماوں کی گودیں اجاڑ دیں اور 16گھرانوں کے بچے اپنی ماوں یا باپ سے محروم ہوگئے۔ صرف چار دن بعد اپنے جمعہ کے خطبے میں لال مسجد کےدہشتگردمولانا عبدالعزیز کا کہنا تھاکہ تحریک طالبان نے فضائی حملوں کے جواب میں 132 بچوں کو قتل کیا، طالبان کا یہ اقدام قابل فہم ہے، حکمراں جیساکریں گے اس کا ردعمل بھی ویساہی ہوگا، آپریشن ضرب عضب غیر شرعی ہے۔مولانا عبدالعزیز کی پشاور کے واقعے کے بعد بھی دہشتگردوں کی کھلی حمایت کرنے پر اسلام آباد کی سول سوسائٹی نے لال مسجد کے سامنے مظاہرہ کیا اور مولانا عبدالعزیز کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا، جواب میں لال مسجد کےاس دہشتگرد نے مظاہرین پر حملے کی دھمکی دی۔ سول سوسائٹی کے مسلسل مظاہرئے اور اُنکی ایف آئی آر درج ہونے کی وجہ سے اسلام آباد کی ایک عدالت نے مولانا عبدالعزیز کے نا قابل ضمانت وارنٹ جاری کردیے ہیں جن پر آجتک عمل نہیں کیا گیا، تاہم مولانا عبدالعزیز کا تو یہ کہنا تھا کہ وہ نہ تو گرفتاری دیگااور نہ ہی ضمانت کرائے گا، ساتھ ہی اُس کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری مسترد کرتا ہے۔
سول سوسائٹی نے مولانا عبدالعزیز کی گرفتاری کےلیے تھانہ آب پارہ کے سامنے مظاہرہ کیا۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ عدالت سے مولانا عبدالعزیز کے نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے با وجود پولیس انہیں کیوں گرفتار نہیں کر رہی۔ مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مولانا عبد العزیز کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے والے جج کی سیکیورٹی کےلیے بھی اقدامات کیے جائیں۔ جواب میں شہداء فائونڈیشن آف پاکستان(لال مسجد)نے سول سوسائٹی کی کی جانب سے مولانا عبدالعزیز کے خلاف مظاہرے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ مولانا عبدالعزیز نے سانحہ پشاور کے بعد جو بھی موقف دیا وہ حقائق کے عین مطابق ہے، آئندہ لال مسجداور مولانا عبدالعزیزکے خلاف کسی بھی اشتعال انگیزی کو قبول نہیں کیاجائے گا، نام نہاد سول سوسائٹی کو لگام نہ دی گئی تواینٹ کا جواب پتھرسے دیاجائے گا۔
کیا وجہ ہے کہ مولانا عبدالعزیز جو نہ صرف دہشتگردوں کا حامی ہے بلکہ خود بھی ایک دہشتگرد ہے سرعام ملک کے قانون کی دھجیاں اڑاتا ہے، وہ ملک کے آیئن کو ماننے سے انکار کرتا ہے، عام لوگوں کو وہ اور اُسکے ساتھی دھمکیاں دیتے ہیں کیوں گرفتار نہیں کیا جاتا۔ وجہ سیدھی سیدھی یہ ہے کہ حکمران خود دہشتگردوں کے حامی بھی ہیں اور اُن سے ڈرتے بھی ہیں۔ کیامیڈيا کے لفافے لينے والے صحافيوں میں سے کسی میں یہ ہمت ہے کہ وہ لوگوںمیں شہباز شريف کا وہ بيان دہرا سکے کہ ”طالبان ہم پر حملے نہ کریں وہ ہمارے بھائی ہیں” یا پھر عمران خان کے “طالبان کو دفتر کھول کر دينے اور مذاکرات کے سوا کوئی حل نہیں ہے” کی بات کیوں نہیں دہرائی جارہی ہے۔
سانحہ پشاور پروزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھاکہ ایک باپ ہونے کے ناطے اُنہیں احساس ہے کہ والدین اپنے بچوں کی سلامتی کی دعائیں مانگتے ہیں، والدین کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا کہ اپنے بچوں کے جنازے کو کندھا دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ 6سال کی بچی خولہ میری بیٹی تھی جو ٹیسٹ دینے گئی اور واپس نہیں آئی، حذیفہ بھی میرا بیٹا تھا جو ناشتے کے بغیر گھر سے نکلا اور واپس نہیں آیا، پوری دنیا بچوں کے والدین کے غم میں برابر کی شریک ہے، دہشت گردوں نے قوم کے معصوم بچوں کونشانہ بنا کر ہمارے مستقبل کے سینے میں خنجر گھونپا ہے، ہم اپنے معصوم بچوں کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دینگے۔ لیکن اکیس دسمبر کو وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے جوپریس کانفرنس منعقد کی اسکو دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہ پریس کانفرنس سانحہ پشاور کے بارے میں نہیں بلکہ مدرسوں اور لال مسجد کےدہشتگرد مولانا عبدالعزیز کے دفاع کےلیے کی گئی تھی۔ افسوس ناک اورمضحکہ خیز بات یہ کہنا ہے کہ مدرسوں کا دہشت گردی سے تو تعلق نہیں البتہ کچھ دوسرے عوامل ضرور موجود ہیں جن میں بیرونی فنڈنگ شامل ہے۔ گویا بیرونی فنڈنگ کی تحقیق کرنا ضروری نہیں، ملک کے وزیر داخلہ کا معذرت خواہانہ اور جانبدارانہ لہجے میں پریس کانفرنس کرنا حکومت کی کھلی بزدلی کا ثبوت ہےجبکہ پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر اعتزازاحسن کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے کی مسجد میں تحریک طالبان پاکستان کا ہمدرد بیٹھا ہے،سی ڈی اے کا ملازم مولانا عبدالعزیز بچوں پر حملے کا جواز پیش کرتا ہے، آپ اسے روک نہیں سکتے تو کون سی جنگ لڑیں گے۔
حکومت کی کمزوری دیکھ کر ہی لال مسجد کا یہ شقی القلب دہشتگرد جو طالبان دہشت گردوں کی نمایندگی تو کر ہی رہا تھااب ملک کے دارلخلافہ میں بیٹھ کرنہ صرف طالبان بلکہ داعش کے ایجنٹ کے فرایض انجام دئے رہا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ مولانا عبدالعزیزنے اپنے ایک اخباری انٹرویو میں کھل کر داعش کی حمایت کی ہے، مولانا کا کہنا تھا کہ “عنقریب داعش پوری دنیا پر فتح کے جھنڈئے لہرائے گی”۔ اگر نواز شریف واقعی معصوم بچوں کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دینا چاہتے تھے تو سب سے پہلے لال مسجد سے دہشتگردوں کا خاتمہ کرتے اور اسلام آباد کے سب سے بڑئے دہشتگرد مولانا عبدالعزیزکو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دلواتے لیکن اُنکے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے واشنگٹن میں اپنے تین روزہ دورہ امریکا کے اختتام پر صحافیوں سے بات چیت کے دوران کہا کہ اسلام آباد کی لال مسجد کے امام مولانا عبدالعزیز نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر سولہ دسمبر کے دہشت گرد حملے کے دفاع پر تحریری معذرت پولیس کے سامنے جمع کرائی ہے۔ انہوں نے مزید کہا ” اگر ہم انہیں گرفتار کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں کوئی اور المناک سانحہ پیش آجاتا ہے تو اس کے بہت منفی نتائج مرتب ہوں گے، تو میرا ماننا ہے کہ ہمیں اپنے اقدامات کا تسلسل برقرار رکھنا چاہئے”۔
وزیر داخلہ کے بیان کےجواب میں شہداءفاونڈیشن لال مسجد کے ترجمان حافظ احتشام احمد نے کہا ہے کہ لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز نے پشاور حملے کے بعد اپنے بیان پر کسی بھی قسم کا تحریری معافی نامہ نہیں جمع کروایا تاہم ان کا کہنا ہے کہ مولانا عبدالعزیز حملے کے اگلے ہی روز نجی ٹی وی پر اپنے بیان پر ان لوگوں سے معافی بھی مانگی جن کی اس بیان پر دل آزاری ہوئی۔بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت میں یہ سکت ہی نہیں کہ وہ دہشتگردوں سے مقابلہ کرسکے یہ ہی وجہ ہے پاکستانی وزیرداخلہ نے واشنگٹن میں نہ صرف مولانا عبدالعزیزکی گرفتاری سے متعلق جھوٹ بولا اور اپنی حکومتی بزدلی کو یہ کہہ کر چھپانے کی کوشش کی مولانا عبدالعزیزکی گرفتاری کے نتیجے میں کوئی اور المناک سانحہ پیش آسکتا ہے، گویا کسی بھی دہشتگرد یا اسکی حمایت کرنے والے کو کچھ نہ کہا جائے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پشاور سانحہ کے بعد بھی دہشتگردی ہورہی ہے، شکار پور کی امام بارگاہ میں دھماکے سے 63 افراد، لاہور پولیس لائنز دھماکے میں آٹھ افراد جبکہ راولپنڈی میں چٹیاں ہٹیاں کے امام بارگاہ میں دھماکے سے سات لوگ مارے گئے، کیا مولانا عبدالعزیز کی گرفتاری سے اس زیادہ کچھ ہوتا۔
دوستوں بدقسمتی سے پاکستان کے سیاستدان ملک کےلیے بعد میں اور اپنے لیے پہلے سوچتے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ ملک میں دہشتگردی اور بیرونی ملکوں کی سازشوں میں اضافہ ہوا ہے، پاکستان کے عوام جانتے ہیں کہ آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ عسکری قیادت کا ہے جسے بحالت مجبوری نواز شریف اور دوسرئے طالبان کے ہمدردوں نے تسلیم کیا تھا۔ غلطیاں سب سے ہوئی ہیں، سارئے جنرل اچھے نہیں ہیں تو سارئے جنرل برئے بھی نہیں ہیں، باقی ایک عام فوجی تو شہادت کی تمنا لیکر فوج میں آتا ہے، ہم شکر ادا کریں کہ ایک پیشہ ور فوج ہمارئے ملک میں موجود ہے ورنہ عرب ملکوں کا حال ہمارئے سامنے ہے۔ اللہ تعالی سے دعا کریں کہ آپریشن ضرب عضب جلد از جلد کامیابی سے ہمکنار ہو اور پاکستان ایک پرسکون ملک بن جائے، آمین۔
تحریر: سید انور محمود