کابل: افغانستان کے دارالحکومت کابل میں دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دینے کے لیے جمع ہونے والے علماء کے اجتماع پر خودکش دھماکے کے نتیجے میں 7 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔ افغان نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق کابل پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ دھماکا
خودکش تھا جو علماء کونسل کے اجلاس کے اختتام کے بعد اس وقت ہوا جب علماء اجتماع گاہ سے باہر آرہے تھے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ حملہ آور نے خود کو لوئل جرگہ کے اجتماع کے ٹینٹ سے باہر دھماکہ خیز مواد سے اڑایا، جبکہ اجتماع گاہ میں 2 ہزار سے زائر علماء موجود تھے۔افغان وزارتِ داخلہ کے ترجمان حشمت استینکزئی کا کہنا ہے کہ ابتدائی معلومات کے مطابق اب تک 7 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، لیکن یہ بھی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ اس دھماکے میں جاں بحق افراد کی تعداد 12 ہے۔ نجی نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق دھماکے سے قبل علماء نے افغانستان میں جاری شورش کے حوالے سے فتویٰ دیتے ہوئے اس لڑائی کو غیر اسلامی اور شریعت کے منافی قرار دیا۔علماء کے فتوے میں کہا گیا کہ افغانستان میں کسی بھی طرح کی جنگ غیر اسلامی عمل ہے اور یہ مسلمانوں کے قتلِ عام کے سوا کچھ نہیں ہے۔افغانستان میں خودکش حملے ہوتے رہتے ہیں جن میں بڑی تعداد تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے، جن کی شدید الفاظ میں مذمت بھی کی جاتی ہے لیکن عسکریت پسندوں کا ماننا ہے کہ خودکش حملے ان کے لیے ایک موثر ہتھیار ہے۔افغانستان کے علماء نے فتویٰ دیا کہ خودکش حملے،
معصوم لوگوں کو قتل کرنے کے لیے بم دھماکے، تقسیم، عسکریت پسندی، کرپشن، چوری، اغوا سمیت کسی بھی طرح کی ہنگامہ آرائی اسلام میں گناہ کبیرہ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے منافی ہے۔علمائے کرام کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلمانوں کا قتلِ عام حرام ہے اور یہ ایک غیر قانونی عمل بھی ہے۔دریں اثنا افغانستان کے علماء نے ایک مرتبہ پھر طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک میں امن کے لیے حکومت کی غیرمشروط پیشکش کو قبول کر لیں۔انہوں نے امید ظاہر کی تھی کہ افغانستان میں مزید قتل عام کو روکنے کے لیے طالبان حکومتی پیشکش کا مثبت جواب دیں گے۔خیال رہے کہ یہ فتویٰ افغان صوبے ننگرہار میں ایک بم دھماکے میں 3 معصوم بچوں کی ہلاکت کے بعد سامنے آیا تھا۔ نجی نیوز کی ایک اور رپورٹ کے مطابق 3 جون کو افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں بارودی سرنگ دھماکے کے نتیجے میں سڑک کنارے موجود 3 بچے ہلاک ہوگئے تھے۔افغان حکام کی جانب سے جاری کردی بیان میں بتایا گیا کہ مرنے ولے تنیوں بچوں کی عمریں 12 سے 13 سال کے درمیان ہیں۔یاد رہے کہ 30 مئی کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں وزارت داخلہ کے دفتر کے قریب 2 دھماکوں اور فائرنگ کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور 5 زخمی ہوگئے تھے۔