تحریر: ڈاکٹر ایم اے قیصر
پشاور ایک بار پھر دہشت گردی کی ضد میں۔۔۔ لیکن! یہ دہشت گرد انسان نہیں بلکہ چوہے ہیں۔۔۔ انسانوں کی دہشت گردی تو عسکری قیادت نے خاص اپریشن کر کے کسی حد تک کنٹرول کر لی ہے۔۔۔ لیکن اب درپیش ہے چوہوں کی دہشت گردی ۔۔۔ سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور اور حالیہ سانحہ گلشن اقبال پارک لاہور میں دہشت گردوں نے بچوں کو نشانہ بنایا ۔۔۔ پشاور کے خونخوار چوہے بھی رات کو سوتے میں بچوں پہ حملہ آور ہوتے ہیں۔۔۔ کسی کے ہاتھ کی انگلی پہ کاٹ لیتے ہیں تو کسی کے گردن پہ۔۔۔یقینا پشاور کی ضلعی انتظامیہ کے ذہن میں بہت سے سوالات کھٹکے ہوں گے۔۔۔ کیا یہ عام نسل کے چوہے ہیں یا کسی خاص نسل سے ان کا تعلق ہے؟ آخر یہ چوہے چاہتے کیا ہیں؟ ان کا مقصد کیا ہے؟ یہ کہاں سے آئے ہیں؟کیا ان کی کوئی باقاعدہ تربیت گاہ ہے جہاں سے یہ ٹریننگ حاصل کر کے آتے ہیں؟ یہ تمام سوالات تو اپنی جگہ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ان سے نپٹا کیسے جائے؟ ۔۔۔
تو ان سے نپٹنے کے لیے۔۔۔ پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے اِن چوہوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ان کے سر کی قیمت فی چوہا 25/- روپے مقرر کی جبکہ کینٹ ایریا کے چوہوں کے سر کی قیمت 300/-روپے مقرر کی ۔۔۔ بس چوہا مارنے کی قیمت کیا مقرر کی گئی۔۔۔ ہر بندہ چوہے مارنے کے لیے میدان میں اُتر آیا۔۔۔ ایک نجی ٹی وی چینل کی رپورٹ میں دکھایا گیا کہ پشاور کے شہری ہاتھوں میں ڈنڈے تھامے چوہوں کو مارنے کے لیے ان کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔۔۔ بڑے تو بڑے بچے بھی پیچھے نہ رہے۔۔۔ رپورٹ میں دکھایا گیا کہ ایک بچہ چوہے کو مار کر دم سے پکڑ کر دکھا رہا ہے۔۔۔ جیسے کہ وہ کہہ رہا ہو کہ ُاس نے اپنے دشمن کو مار گرایا اور فتح حاصل کر لی۔۔۔ یا یہ کہہ رہا ہو کہ ابو تو صبح سے مزدوری کے لیے جاتے ہیں۔۔۔ خون پسینہ ایک کر کے سارا دن محنت کرتے ہیں۔۔۔ تب جا کے کہیں شام کو 300/-روپے کما پاتے ہیں اور میں نے ایک چوہا مار کے 300/- روپے کما لیے۔۔۔ دھڑا دھڑچوہے مارے تو جا رہے ہیں لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ پیسے کون دے گا؟۔۔۔
اس کے لیے خطیر رقم کی ضرورت ہو گی۔۔۔ وہ رقم کہاں سے آئے گی؟۔۔۔ کیا اس مد میں بجٹ میں کچھ حصہ مخصوص کیا گیا تھا؟۔۔۔یا کسی اور مد سے لی جائے گی؟۔۔۔ یا پھر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتیاں کی جائیں گی؟ ۔۔۔ یا کسی مفتی صاحب سے فتویٰ لے کر کہ ” دشمن دہشت گرد چوہوں کے خلاف جہاد کرنے والے زکوٰة کے مستحق ہیں” زکوٰة فنڈ سے ادائیگیاں کی جائیں گی۔رقم کی ادائیگی تو ایک طرف مردہ چوہوں کی وصولی بھی ایک مسئلہ ہو گی۔۔۔ شہر بھر میں ”مردہ چوہے کولیکشن سنٹرز” کھولنے کی ضرورت ہو گی۔۔۔ جو شہریوں سے چوہے وصول کریں گے اور انعام کی ادائیگی کریں گے۔۔۔ اس کام کے لیے ایک منظم ٹیم تشکیل دینے کی ضرورت ہو گی۔۔۔ بحیثیت پاکستانی قوم بد عنوانی بھی ہم نے اپنے شعائر میں شامل کر رکھی ہے۔۔۔ تو اسے بھی پس ِپشت نہیں ڈالنا چاہئے۔۔۔ انتظامیہ کے عملے کی ملی بھگت سے ایک چوہے کی ادائیگی ہونے کے بعد دوبارہ سے بل ادائیگی کے لیے پیش کیا جا سکتا ہے۔۔۔ ایک چوہے کی لاش پہ متعدد بار انعام حاصل کیا جا سکتا ہے۔۔۔
اس پہ کڑی نظر رکھنے کے لیے ایک الگ فورس تیار کرنے کی بھی ضرورت ہو گی۔۔۔ اگر یہی صورت حال رہی تو ہم ابھی سے پشین گوئی کئے دیتے ہیں کہ وفاقی حکومت کو مستقبل قریب ڈی چوک میں ایک اور دھرنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔۔۔ وہ دھرنا شیر کی خالائوں یعنی بلیوں کا ہو گا۔۔۔ کیونکہ پشاور کی ضلعی انتظامیہ ان کی حق تلفی کر رہیں ہے۔۔۔ اور پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چوہوں کی لاشوں کی سمگلنگ ہونا شروع ہوجائے۔۔۔ کیونکہ یہ انعام کی آفر تو صرف پشاور کے لیے ہے، پاکستان کے باقی شہروں سے بے روزگاری کے ستائے ہوئے باشندے اس آفر سے مستفید ہونے کے لیے چوہوں کی لاشیں دوسرے شہروں سے لا کر انعام وصول کر سکتے ہیں۔۔۔
اس کے لیے شہر کے داخلی خارجی راستوں پر ناکہ بندی اور کڑی چیکنگ کی ضرورت ہو گی۔۔۔ میڈیکل ٹیم اور لیبارٹریز کی ضرورت ہو گی جو پوسٹ مارٹم یا ڈی این اے ٹیسٹ کر کے پتہ لگا سکے کہ چوہا پشاور کے علاقے کا ہی ہے یا باہر سے سمگلنگ کر کے لایا گیا۔۔۔ خیر ہمیں یہ سب سوچ کر خواہ مخواہ فکر مند ہونے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔ ہم نے تو بیر کھانا ہے پھر چاہے وہ بیری سے ملے یا کیکر سے!۔۔۔نیا پاکستان بنانے والوں نے۔۔۔
نئی سوچ کے ساتھ۔۔۔ نئے قوانین مرتب کئے ہوں گے۔۔۔ ممکن ہے چوہا مار مہم کو کامیاب بنانے کے لیے نیاشعبہ ”اینٹی ریٹ فورس” بھی متعارف کروایا جائے۔۔۔ اگر ایسا ہوا تو فائدہ عوام کا ہی ہے۔۔۔ ہمارے بیروزگار نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔۔۔ شہر میں چوہوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ بیروزگاری کا خاتمہ بھی ممکن ہو گا۔۔۔ اگر ایسا ہوا تو پھر ہم فخر سے کہہ سکیں گے کہ ۔۔۔ نیا پاکستان! خوشحال پاکستان!
تحریر: ڈاکٹر ایم اے قیصر