تحریر: ثناء ناز۔ رجانہ
میں کس سے کہوں یہاں جو الم گزر رہے ہیں
میرے شہر جل رہے ہیں میرے لوگ مر رہے ہیں
دہشت گرد کون تھے کہاں سے آئے۔ ان کے ناپاک عزائم کیا ہیں وطنِ عزیز میں خوف و ہراس پھیلا کر آخر یہ باور کیا کروانا چاہتے ہیں کیوں۔ یہاں آئے روزکئی چراغ گل کر دیئے جاتے ہیں، کئی ماوؤں کے لال ابدی نیند سلا دیئے جاتے ہیں۔خاندان کے واحد کفیل کو بے وجہ موت کی بے درد بھٹی میں جھونک دیا جاتا ہے۔آزادنہ ملک اورتمام تر اختیارات ہونے کے باوجود کیوں ہماری قوم کو ڈر ڈر کر جینا پڑتا ہے۔ چند مشترک سوالات جو ہر پاکستانی کے ذہن میں اٹھتے بیٹھتے لاشعوری طور پر گردش کرتے ہیں۔خواہ الیکٹرونک میڈیا ہو پرنٹ میڈیا یا پھر شوشل میڈیا ہر جگہ یہء سوالات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔۔
شہر، مارکیٹس، تعلیمی ادارے ،امام بارگاہیں ،مساجد مختصراً دشمن عناصر نے کوئی ایسی جگہ نہیں چھوڑی جہاں یہ جارجانہ عمل نہ دہرایا گیا ہو۔مغربی میڈیا پورے جوش و خروش سے دہشت گردی کے تمام تر واقعات اسلام سے جوڑنے پر مصروف ہے حکومتی اقدامات اب تک عوام کو مکمل طور پرمطمئن کرنے میں ناکام ہے۔قانون نافذ کرنے والے ادارے انفرادی طو ر پر اس مسئلے کے سلجھاؤ پر ہر ممکنہ غور و فکر تو کر رہے ہیں۔ لیکن عدم سیکورٹی اور غلط منصوبہ بندی کے باعث دہشت گردی کے واقعات بتر یج جاری ہیں۔ آپریشن ضرب عضب میں دہشت گرد وں کا جال مٹانے کی خاطر پاک فوج اور دیگر سیکورٹی اہلکار بلا خوف ،بے دریغ جس عزم سے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کر رہے ہیں بلا شبہ پاکستانی عوام ان جوانوں کی شہادت پر فخر کرتے ہوئے دل کی گہرایوں سے انہیں اخراج تحسین پیش کرتی ہے۔۔
موجودہ حالات پر نظر ڈالی جائے تو یہی دیکھنے کو ملتا ہے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے۔ جو مکڑی کے جالے کی مانندپورے ملک کو اپنے لیپٹ میں لیئے ہوئے ہے۔آئے دن رونما ہونے والے دہشت گردی کے جارجانہ واقعات ملکی سالمیت اور بقا کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھو کھلا کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک 3500 بے گناہ مسلمان دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ تمام تر حقائق سے مکمل طور پر آگائی ہونے کے باوجود حکومتی لیڈران آنکھوں پر بے حسی کی سیا ہ پٹی باندھے انا کی جنگ لڑنے میں مصروف رہتے ہیں تو کبھی طا لبان سے مزاکرات کی جھوٹی تسلیاں دیکر عوام کے زخموں پر وقتی طور پر مرہم رکھ دیا جاتا ہے۔حال تو یہ ہے ملک کے بیشتر بااثر طبقات اپنی محفوظ پناہ گاہوں میںپرسکون میٹھی نیند کے مزے لوٹ رہے ہیں۔جبکہ غریب شہر میں خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں،گوشت کے لوتھڑے اڑ رہے ہیں۔جب حالات سنگین نتائج کو پہنچتے ہیں تو ہر کوئیہاتھ میں “دہشت گردی سے نجات”کا بورڈ تھامے سڑکوں پر نکل کھڑا ہوتا ہے۔
اس احتجاج کے سلسلے میں وقوع پزیز ہونے والے مثبت نتائج کا تو پتہ نہیں ہاں منفی نتائج کا خمیارہ ضرور غریب عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ کبھی روڈ بلاک ہونے کی صورت میں تو کبھی دکانوں اور گاڑیوں پر کیئے جانے والیا حتجاجا پتھراؤں کی صورت میں۔سوال مثبت یا منفی نتائج کا نہیں سوال یہ ہے کیا دہشت گردی سے نجات کا نعرہ لگا لینے سے اس مسئلے سے رہائی ممکن ہے۔کیا مذمت کر لینے سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے گا۔سوال یہ ہے دہشت گردی سے نجات کیسے ممکن ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے ماضی کی غلطیاں نہ دہراتے ہوئے معاملے کے بہتر سلجھاؤ کی خاطر سیاسی انتظامی اور عدالتی پالسیز کو نئے سرے سے پلان کیا جائے۔ سیکورٹی سسٹم کو مذید بہتر بنانے کیلئے ترقی یافتہ ممالک متحدہ امارات اور چین کی طرح سخت نظام عائد کیا جائے۔پاکستان میں امن و امان ،عدل و انصاف اور انسانیت کی بحالی کیلئے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پوری قوم کو متحد ہوکر لڑنا ہو گا۔۔کیونکہ کوئی ملک چاہئے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اپنی قوم کے تعاون اور حوصلے کے بغیر کبھی فتح یاب نہیں ہو سکتا۔۔ روز سینہ زنی، روز غم پروری ، روز لاشوں کے پیغام پڑھتے ہوئے، سنتے ہوئے آنکھیں پتھرا گئیں، کان بنجر ہوئے۔
تحریر: ثناء ناز (رجانہ)