تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
دہشت گردوں کے چہرے بے بقاب کرنے کا عندیہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے ایسے ہی نہیں دیدیا ہے ۔بلکہ حکومتوں کے حوالے سے اس میں کچھ تو ہے جس کی پردہ داری تھی۔مگر ہر سیاسی پارٹی اس ضمن میں اپنے اپنے کار گذاروں کے چہرے چھپائے رکھنا چاہتی ہے۔ کیونکہ اس میں ساکھ بچانے اوربد نامی کابھی شدید خدشہ تو موجود ہے نا!ذولفقار علی بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی میں کرپشن مافہ نے آہستہ آہستہ قدم رنجا فرمانا شروع کیا ۔تو کرپشن کے پہاڑ مسٹر آصف علی زرداری نے کھڑے کر کے سارے کرپشن مافیہ کو شرما کے رکھ دیا ۔بے نظیر کے بارے میں خیال پیدا ہوا کہ ”منی بدنام ہوئی ڈارلنگ تیرے لئے”مگر پیپلز پارٹی کی رہنما کے شوہر نام دارکو جیلوں سے بھی کوئی سبق نہ ملا اور وہ اپنی ڈگر پر تیزی سے دوڑتے رہے۔بی بی کے شہید ہوجانے کے بعد ایک ڈکٹیٹر جنرل کو ان کی ضرورت محسوس ہوئی تو انہوں نے این آر او کا ڈول ڈال کر کنویں کے سارے گندے پانی کو بیک قلم آبِ زم زم میں تبدل کر کے اپنے راستے کی رکاوٹوں کو ہٹانے کی کوشش تو کی مگرملک کو انتہائی کرپٹ لوگوں کے ہاتھوںمیں دے کر یہ !وہ جا!
پیپلز پارٹی کے اقتدارہاتھ میں آنے اور پاکستان کے انتہائی کرپٹ شخص کے عہدہِ صدارت پر برجمان ہونے کے بعد مت پوچھئے کہ پاکستان میں کرپشن نے کیا شکل اختیار کی ؟پاکستان کے تمام اداروںچاہے وہ پی آئی اے ہو اسٹیل مل ہو،واپڈا ہو پورٹ اینڈ شپنگ اور کے پی ٹی ہو،کے ای ایس سی ہو،غرض یہ کہ کو نساایسا سرکاری ادارا رہ گیا تھاجس کو ان کے دورِ اقتدار کے پانچ سال کی قلیل مدت میںلنگڑا لولہ نہ کر دیا گیا ہو۔پھر سب سے بڑا سوالیہ نشان سندھ کے لاڈالے وزیر اعلیٰ سائن جی قائم علی شاہ کی نا اہلی ہے جو گذشتہ سات سالوں میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی رہی ہے۔مگر سندھ اور خاص طور پر سندھ کے شہری علاقے آج ان کی کار کردگی کی وجہ سے موئن دڑو کے کھنڈرات سے بھی برا منظر پیش کر رہے ہیں۔سندھ سرکار کے ایک آدھ فرد کے علاوہ ،ایک معمولی کلرک سے لیکر ہر وزیر اور ان کا ہرسفیر مال بٹورنے اور اپنے اور اپنی اولادوں کے بینک بیلنس اور منی لانڈرنگ کے لئے جذباتی ہو ا پڑا ہے۔اربوں کھربوں روپیہ منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرونی دنیاکے بینکوں میںلیجا لیجا کر چھپانے کی کوششیں آج تک جاری ہیں
کراچی میں ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری نے پیپلز پارٹی کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ کیونکہ ڈاکٹر عاصم کے پاس سابق صدر زرداری کے کارناموں کی مکمل پروفائل ذہن میں محفوظ ہے۔ویسے ڈاکٹر عاصم ننہال کی جانب سے نہایت ہی معزز گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔جو ڈاکٹر ضیاء الدین کے نواسے ہیں….ان کے والد ڈاکٹر تجمل حسین لاہور سے تعلق رکھتے تھے۔مگرڈاکٹر عاصم کے بچپن کی یاری نے انہیں کرپشن کے میدان میں اتار کر ڈاکٹر ضیا الدین جیسے بڑے انسان کی شخصیت پر بٹہ لگا دیا ہے اور آج وہ منی لانڈرنگ کے حولے سے میڈیا پر سابق صدر آصف علی زرداری کے فرنٹ مین کے نام سے پکارے جا رہے ہیں۔جو بقول میڈیا کے اسٹر ٹیجک بیگز میںسفر کے دوران لوٹ کا مال پاکستان سے باہر منتقل کرنے کے ماسٹر بتائے جا رہے ہیں۔دوسری جانب پیپلز پارٹی کے سابق وزیراعظم یوصف رضا گیلانی اور پیپلز پارٹی کے رہنما امین فہیم کی کرپشن کے سلسلے میں گرفتاریوں کے وارنٹ عدالتوں نے جار ی کر دیئے ہیں یوصف رضا گیلانی کے خلاف 10مقدمات ہیں۔جبکہ امین فہیم کے خلاف 14 مقدمات درج ہیں ۔ان دونوں رہنمائوں کے خلاف ایک ارب سے زائد رقوم کے خرد برد کرنے کے الزمات ہیں۔
امین فہیم اور یوصف رضاگیلانی پرتو ذر داری صاحب سانس روکے رہے مگر ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری پر تو وہ پھٹ ہی پڑے اور لگے میثاق جمہوریت کو اول فول بکنے اور اور وزیر اعظم نواز شریف کو 1990کی سیاست کے طعنے دینے کے بعد زرداری کہتے ہیں کہ نتائج خطر ناک ہوں گے؟؟؟؟ان کا مزید کہنا یہ بھی تھا کہ لگتا ہے ماضی سے سبق نہیں سیکھا۔حقیقی دشمن کو چیلنج کرنے کے بجائے پیپلز پارٹی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اس سے پہلے زرداری مفاہمت کی سیاست کے حوالے سے یہ بات بھول گئے تھے کہ ان کو ملک سے باہر نکلنے کے اشارے انہیں کس نے دیئے تھے۔اب لندن میں بیٹھ کر کہہ رہے ہیں کہ ہم وہ نہیں جو معافی مانگ جدہ بھاگ جاتے ہیں۔تو زرداری صاحب سو بسم اللہ ملک میں آکر سیاست کریں تاکہ آپ کے دیئے گئے طعنے میں جان پیدا ہو سکے ساری قوم جانتی ہے کہ آپ ایسا نہیں کریں گے۔کیونکہ دودھ کا جلا چھاچ کو بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔
ڈاکٹر عاصم کی رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری اوریوصف رضا گیلانی و امین فہیم کے وارنٹوں نے پیپلز پارٹی میں ایک سنسنی پیدا کر دی ہے اس حوالے سے قائد حزبِ اختلاف مسٹر خورشید شاہ کی جانب سے وارننگ دی گئی ہے کہ( اگر جیالوں کی کرپشن کے ضمن میں)گرفتاریاں نہ رکی تو جنگ کا آغاز ہو جائے گا۔ دوروز پہلے اپنی پریس کانفرنس میں شیری رحمان اور قمر زمان کائرہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے سوال کیا کہ نیشنل ایکشن پلان پر ہمیں وضاحتیں دی جائیں کہ پیپلز پارٹی کے خلاف کاروائیوں سے کیا پیغام یا جا رہا ہے؟ہم سجھتے ہیں کہ پیغام یہ ہے کہ لیاری گینگ وار کے دہشت گردوں کو فنڈس فراہم کئے جاتے رہے ہیں….وہ مزید کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف بنائے گئے قوانین سیاست دانوں کے خلاف کیوں استعمال کئے جا رہے ہیں؟اس کا جواب ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہے کہ تمام سیاسی ایکٹر اپنی اپنی جماعتوں سے دہشت گردوں کو نکال باہر کریں تو ہماری سیاست پوتر ہو جائے گی اور پھر اس قسم کے سوالات خود ہی دم توڑ جائیں گے۔لیاری کے دہشت گردوں کی معاونت کو فراموش کرتے ہوئے ان رہنمائوں نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی دہشت گردوں کے خلاف لڑرہی ہے۔اس پر دہشت گردوں کی مالی معاونت کا الزام کیسے لگایا جا سکتا ہے؟
.کائرہ صاحب ماضی کو فراموش کر رہے ہیں جب بی بی بے نظیر بھی طالبان کو سپورٹ کر رہی تھی وہ دن آپ بھول گئے رہے ہیں شائد؟؟؟ ایک اہم بات قمر زمان کائرہ نے یہ کہی کہ کرپشن کرنے والوں کا احتساب چاروں صوبوں میں ہونا چاہئے۔ہماراکہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اس بات کو عوام پر چھوڑ دے کہ کون قابلِ احتساب ہے اورکون معصوم ہیں ۔او ر کون دہشت گردوں کے معاون ہیں؟ ”خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں”کے مصداق پیپلز پارٹی کا موجودہ رویئہ نظر آرہا ہے۔ہر صوبے میں کرپشن کے خلاف کاروائیاں مسلسل کی جا رہی ہیں ۔مگر دیکھنے والی نظر چاہئے
اب پیپلز پارٹی کا روئیہ ایسا لگتا ہیں کہ ”نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے” بڑی مشکلوں سے جمہوریت نے ٹریک پر ڈاگمگاتے ہوئے آنا شروع کیا ہے۔ اس وقت مالی اور سماجی دہشت گردی کے خلاف پوری قوم اپنی افواج کے ساتھ کھڑی ہے۔جو بھی اس راستے کی رکاوٹ بنے گا وہ خجل خوار ہو جائے گا ۔بعض جمہوریت کے دشمن ایک مرتبہ پھر اپنی دوکانیں چمکانے کے موڈ میں دکھائی دیتے ہیں اُن کی دلی خواہش تویہ ہے کہ کسی طرح ملک سے جمہوری نظام کی بساط لپٹ جائے۔مگر ہم سمجھتے ہیں کہ فوج میں بھی اس بات کا احساس ہو چلا ہے کہ ملک کی بقا کا دارومدار ملک میں جمہوری نظام کے چلنے میں ہی ہے۔لہٰذا ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستان میں جو غیر جمہوری کھیل کھینے کی منصوبہ بندیاں ہورہی ہیں اُن کو جمہوری قوتیں اور پاکستان کے عوام پنپنے نہیں دیں گے اور دہشت گردوں کے چہرے بے نقاب کرنے میں بھی لوگ اپنی عسکری قوتوں کا ساتھ دیں گے….۔
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
03333001671
shabbir23hurshid@gmail.com