تحریر: ایم سرور صدیقی
ہم دیکھیں غور کریں تو احساس ہوگا اس معاشرے میں قدم قدم پر ہمارا واسطہ روزانہ ان گنت جاہلوں سے پڑتا رہتاہے اورجاہل بھی اس قدر جاہل کہ حیرت ہوتی ہے دنیا کی قیامت خیز ترقی، نت نئی ایجادات، شعو رو آگہی ،فہم و فراست کا بڑھتا ہوا رحجان، حالات اور ذہنوںمیں آنے والی تبدیلی کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہواوہ بھی جانتے ہیں یہ سلسلہ زیادہ دیرتک نہیں چل سکتا اندھیرا محض اتنی دیرہی کا مہمان ہوتاہے جب تک سورج طلوع نہیں ہوتا اور پہلی کرن ہی اندھیرے کا سینہ چیرتی ہوئی ماحول کو منور کرنے کیلئے کافی ہوتی ہے اندھیرا ذہنوں میں ہو یا دل میں۔۔ ماحول میں ہو یاحالات میں۔۔۔ ہمارے لئے یہ جاننا کافی نہیں جہالت سب سے بڑا اندھیراہے اس کے خلاف جہاد کرنے سے روشن خیالی فروغ پا سکتی ہے کچھ لوگ روشن خیالی کو بے حیائی سے تعبیر کرتے ہیں حالانکہ ایسا سمجھنا بھی جہالت کی علامت ہے۔۔۔
جہالت دل میں ہو یا دماغ میں۔۔۔ سوچ میں ہویا فکر میں یا پھر انداز ِ فکرمیں اس کوعلم ہی جگمگا سکتاہے ان پڑھ مولوی ،جاہل دانشور اورسبزباغ دکھانے والے سیاستدان جہالت کے دلدادہ ہیں ان کا کاروبار جہالت کے زور چلتاہے کیونکہ جھوٹ ،منافقت ، ریاکاری، خوشامد ۔۔۔جہالت کے نیٹ ورک کی بنیادی اکائیاں ہیں جس شخص میں ان میں سے کوئی ایک اکائی بھی پائی جاتی ہو اس کے جاہل ہونے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے جہالت ذہنی رویے بدل کررکھ دیتی ہے۔جب قوموں سے احساس ،مروت ، اخوت ،ہمدردی جیسے اوصاف ختم ہو جائیں تولوگوں کی عجیب کیفیت ہو جاتی ہے،دل احساس کی دولت سے محروم ہوکر بنجرہو جائیں تو برسوں رحمت کی برکھا بھی نہیں برستی ۔مال ، دولت اور وسائل کی لگن میں حلال حرام اور اچھے برے کی پہچان کھو دے تو زندگی کسی لق دق صحراکی مانندہو جاتی ہے لرزتے ہونٹ ، کاپتے جسم ،پانی کو ترستی زباں کے ساتھ پانی کی تلاش میں قدم قدم پر سراب دکھائی دیتاہے ہم جانتے ہیں۔
دنیا ایک دھوکہ ۔۔ہے دل بھی یہی کہتاہے زبان سے انکار نہیں ہوتا ہم دنیاوی خواہشات کے پیچھے بھاگتے بھاگتے تھک جاتے ہیں زندگی کی آخری سانسوں تک دل سے دولت کی محبت ختم نہیں ہوتی پھر سو چتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت نے ہم سے کیوں منہ موڑ رکھا ہے آج ۔۔ ابھی وقت ہے ۔ چلیں دل پر ہاتھ رکھ کر خود فیصلہ کرلیں یہ صورت ِ حال گواراہے اسلام ظلم کی ہر شکل کے خلاف ہے، استحصال خداکو ہرگز گوارا نہیں۔ انسانیت سے پیار ہادی ٔ برحق ۖ کا پسندیدہ کام ہے ۔ہمارے پاس زندگی گذارنے کا مکمل منشورہے جس میں ہر چیز واضح واضح ہے۔ اچھا برا ایک برابر۔ ظالم ، مظلوم سے ایک سلوک۔ حلال حرام ایک جیسا۔ دن رات میں کوئی تمیز نہیں ۔نہیں جناب نہیں یہ فلسفہ درست نہیں ۔۔برائی کو دل میں بھی برا نہ کہنا مسلمان کا شیوہ نہیں۔ اسلام تو دین اور دنیا دونوں میں توازن چاہتاہے دن رات عبادت کرنے والوں کے لوگوں کے ساتھ معاملات بہتر نہ ہوں۔۔
تعلقات کشیدہ ہوںاور وہ احساس ِ برتری کے زعم میں مبتلاہوجائیں تو ایسی عبادت۔۔۔عبادت نہیں ہمارے سامنے ہادی ٔ برحق ۖ کی پوری زندگی ایک مثال ہے ان کا اسوہ ٔ حسنہ ہمیں قدم قدم پر جھنجھوڑ کررکھ دیتاہے غور کریں نبی پاک ۖ ہر معاملے میں سچے اور کھرے نظر آئیں گے ان کی پوری سیرت ِ مبارکہ روشن روشن ۔۔جگ مگ جگ مگ ہے آپ ۖنے ہمیشہ سچے کا ساتھ دیا بے شک دشمن ہی کیوں نہ ہو اور ہم سب کا وطیرہ یہ ہے کہ ہم باتیں بہت کرتے ہیں اپنا بھی یہی حال ہے۔۔۔شاید یہ دنیا ہی ایسیہے آج ہرروشن پہلو ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔۔۔ یقین جانو عاجزی اختیارکرنے والا افضل ہے یہی وجہ ہے کہ سلام کرنے میں پہل کرنے والا دوسروں سے بہتر کہا گیاہے آسمان پر اڑتے ہوئے ایک پرندے سے کسی نے پوچھا تمہیں بلندی سے زمین پر گرنے کا خوف نہیں؟۔۔ پرندے نے مسکرا کر جواب دیا میں انسان نہیں ہوں جو ذرا سی بلندی پر جاکر اکڑ جائوں میری نظریں ہمیشہ زمین پر ہوتی ہیں۔۔۔کچھ سمجھ میں آیا کم ازکم ہمیں پرندے جیسی روش ہی اختیار کر لینی چاہیے۔
اس میں بہتوں کا فائدہ ہے۔۔ سوچتا ہوں ہمارے ملک کے نام کے ساتھ اسلامی جمہوریہ بھی لگا ہوا ہے لیکن یہ ملک اسلامی ہے نہ جمہوری ۔۔۔اگرہو تو دونوں صورتوں میں عوام کے کچھ حقوق تو ہونے چاہییں۔۔ جن ممالک کو ہم کافر اور غیر مسلم قرار دیتے ہیں ان میں جانوروںکے بھی حقوق ہوتے ہیں اور ان کے حق میں آواز بلند کرنے کیلئے کئی تنظیمیں بھی موجود ہیں لیکن جس ملک کو ہم اسلامی جمہوریہ سمجھتے اور لکھتے ہیں یہاں تو غریب انسانوں کا کوئی حق تسلیم نہیں کیا جاتا وہ بے چارے ساری زندگی سسک، سسک کرجیتے ہیں نہ مرتے ہیں ۔ کبھی سوچتا ہوں ہم تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جارہے ہیں پہلے برادریوں کے نام پر۔۔ کبھی لسانی اورعلاقائی سوچ نے ہمیں تقسیم کیا۔۔ پھرفرقوں اور مسالک نے ہمیں اکائی بناڈالا اب طبقاتی سٹیٹس سے جینا محال ہے کیا ہمارے آ س پاس روشنی کی کوئی کرن نہیں؟ ۔۔ مہینے میں دو بار مہنگائی کی نئی لہر جنم لیتی ہے اوراس کی آڑ میں گراں فروشوںکو چیزیں مہنگی کرنے سے کون روک سکتاہے؟۔
روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے والی مہنگائی اور پے در پے منی بجٹ سے گھر گھر لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیں عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا دعوے کو حقیقت بنانے کیلئے کچھ نا گزیر اقدامات کرنا پڑتے ہیں کچھ بے رحم فیصلے بھی عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے والی پالیسی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔ ہمارے وسائل کی کمی توہو سکتی ہے جوہر ِ قابل کی کوئی کمی نہیں۔۔۔ہمت ،استکامت اور عزم سے اس ملک میں ترقی و خوشحالی کیلئے بہت کچھ کیا جا سکتاہے ہم محنت کوشش اور جرأت کریں تو ایک نیا پاکستان تعمیرکیا جا سکتاہے ۔ ہمارے ایک دوست ہیں جاویداقبال بھٹی وہ بوڑھے دکانداروں،ادھیڑ عمر پھیری والوں یا معذوروں سے سودا سلف اور فروٹ خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں ان کا کہنا ہے اس طرح ہم سب سینئر سٹیزن کی کفالت کرسکتے ہیں یہ بھی ہمدردی کی ایک شکل ہے مدد کرنے کا ایک انداز بھی۔۔۔ جس سے انہیں بھیک مانگنے سے بچایا جا سکتاہے ان کی انا مجروح نہیں ہوتی جن کے گھر والے بھی انہیں” فالتو ” سمجھنے لگ جاتے ہیں۔
یقین جانئے ہیں۔ ہمیں خود بڑھاپے سے بہت خوف آتاہے ہمارے معاشرے میں جتنی تیزی سے اخلاقی اقدار اپنی قدر کھوتی جارہی ہیں اتنی ہی تیزی سے رشتوں کااحترام بھی دن بہ دن کم ہوتا جاتاہے کسی کا خون سفید ہوگیاہے کسی کو مہنگائی اور غربت نے جینا دوبھر کررکھاہے ادویات ،ڈاکٹر اور اچھی خورک اتنی مہنگی ہے کہ افورڈ نہیں ہوتی کسی کے پاس وسائل ہیں تو ان کے پاس اپنے پیاروں کے لئے وقت نہیں ہے یہاں حکومتی سطح پر یا کسی اور انداز میں سینئر سٹیزن کی کفالت کا کوئی مؤثر انتظام نہیںیہی وجہ سے کہ بیشتر بوڑھوںکو فالتو سمجھ کر ان کے پیارے ہی ان سے منہ موڑ لیتے ہیں یہ رویہ بوڑھے والدین کیلئے انتہائی کرب اور اذیت کا سبب بنتاہے اورمایوسی کے عالم میں وہ خود اپنی موت کی دعا کرنے لگ جاتے ہیں ہماری تھوڑی سی توجہ اور ہمدردی ان کے لئے آسانیاں پیدا کرسکتی ہے آزمائش شرط ہے۔
تحریر: ایم سرور صدیقی