تحریر: ثوبیہ اجمل
18 جنوری کو برطانوی وزیر اعظم ڈیود کیمرون نے کہا کہ مسلم خواتین کو اگر برطانیہ میں رہنا ہے تو اپنی انگریزی ٹھیک کرنی ہوگی۔ اڑھائی سال بعد ان کا ٹیسٹ لیا جائے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ انہوں نے انگلش پر مناسب عبورحاصل کرلیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جن خواتین کی انگلش سیکھنے کی صلاحیت بہتر نہیں ہوتی ان کو اس ملک میں رہنے کی کوئی ضمانت نہیں اور جو لوگ ان کے ملک میں آرہے ہیں ان کی کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں جنہیں انہیں پورا کرنا ہوگا۔ خبر کے بعد ایک بات کا شدت سے احساس ہورہا ہے کہ ہر ملک کو اپنی ثقافت کی کس قدر فکر لاحق ہے۔ اگرچے ڈیوڈ کیمرون کے ان جملوں کا مقصد معاشرے میں صنفی امتیاز اور رجعت پسندانہ سوچ کو ختم کرنے کے حوالے سے تھا۔
مذکورہ خبر اپنی جگہ تاہم اگر ہم اپنی تہذیب و تمدن کی بات کریں تو جیسے ہمیں یاد ہی نہیں رہا کہ ہم کون ہیں اور اب کیا ہونے جارہے ہیں۔ تہذیب و ثقافت کسی بھی معاشرے کا اہم اثاثہ ہوا کرتے ہیں۔ معاشرے اسی تہذیب و تمدن کی بنیاد پر اپنے حال اور مستقبل کو سنوارتے ہیں۔ ایک مہذب معاشرہ کبھی بھی پابندیاں عائد نہیں کرتا، تاہم دور حاضر میں ہمارے پاک و صاف معاشرے کو گھٹن زدہ ماحول تصور کیا جارہا ہے۔
لوگوں نے تہذیب و تمدن کو شاید رقص و موسیقی اور مختلف رنگوں کا لباس پہننا ہی سمجھ لیا ہے چند رسموں کو ہم تہذیب کا نام دیتے ہیں جو ہم نے کچھ انگریزوں اور زیادہ تر ہندووں سے سیکھی ہیں ، جبکہ ہمارے دین اسلام نے جو تہذیب کا درس ہمیں دیا ہے اسمیں تو دین و دنیا دونوں کا ہی امتزاج ملتا ہے۔ آج کے دور میں ہم ان طور طریقوں کو بھول چکے ہیں جو کبھی ہمارے بزرگوں کا خاصہ ہوا کرتی تھیں کیسے بچوں کی تربیت کا اہتمام گھروں میں کیا جاتا تھا ۔ انکے اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے اور کھانے پینے سب ہی پر بزرگوں کی نظر ہوا کرتی تھیں۔ اگر وہ کسی کو کچھ غلط کرتا ہوا دیکھ لیتے تو فورا اسکی اصلاح کردیتے تھے ، مگر آج کل کے والدین کے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔
ہم نے مغربی معاشروں کو ترقی کرتے ہوئے دیکھا اور وہاں پھیلی ہوئی بے حیائی سے بھی سبھی واقف ہیں یہ ترقی یقینا انہوں نے بہت محنت سے حاصل کی ہوگی لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے شب وروز محنت نہیں کرسکتے تو سوچا کہ بے حیائی اور بے باکی میں ان کے ہم پلہ ہوجائیں ۔ اس سلسلے میں آزاد الیکٹرونک میڈیا نے بھی لوگوں کو خوب راہ دکھائی ہے جس کی وجہ سے بے حیائی ہمارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کر چکی ہے ۔تاہم اسکی روک تھام کے لیے آج کل کے حکمرانوں نے بھی کوئی اقدام نہیں کیا۔ جیسا کہ ماضی میں ایک چینل کے ہوتے ہوئے پھر بھی حدود و قیود کا خیال رکھا جاتا تھا۔ اب تو سب کچھ مادر پدر آزاد ہی ہیں۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کررکھی ہے جس سے ہمارے معاشرے میں پچھلے دو تین سالوں میں بہت تبدیلی آئی ہے جسے خوش آئند ہرگز نہیں کہا جاسکتا ۔ جن کے نتائج بھی کچھ اچھے نظر نہیں آرہے ہیں۔
ایک طرف ہم ہیں کہ مغرب کی طرف جانے کی کوششیں کر رہے ہیں ایک طرف یورپ ہے کہ جو ہم مسلمانوں کو اپنے معاشرے، اپنی زبان اور اپنے رنگ ڈھنگ میں رنگنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ یہ وہ مغرب ہے کہ جس کے بارے میں شاعر نے خبردار کیا ہے۔
یہی درس دیتا ہے ہمیں ہر شام کا سورج
مغرب کی طرف جاو گے تو ڈوب جاو گے
آج ہمارے لیے سب سے اہم اپنی شناخت کو بحال رکھنا ہے ۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہم کہاں جارہے ہیں۔ اس وقت ضروری ہے نہیں کہ ہمارا اسٹیٹس اور معیار مغربی ثقافت سے کم ہورہا ہے بلکہ ضروری یہ ہے کہ ہماری تربیت اور اپنائیت جس سے مغرب محروم ہے وہ ہمیں اپنی تہذیب و تمدن میں ہی ملے گی۔ وہ خوشبو جسے ہم ایک عرصے سے بھولتے آرہے ہیں وہ ہمیں اپنی ہی ثقافت سے ملے گی۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاو گے
تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں
ہمیں چاہیے کہ جو ہمیں دین اسلام نے تہذیب سکھلائی ہے اسے جاننے اور اپنانے کی کوشش کریں اسی میں ہماری دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔
تحریر: ثوبیہ اجمل