حال ہی میں پاکستان میں فروخت ہونے والے ڈبہ پیک دودھ اور کھانے پینے کی اشیاء پر تحقیق کی گئی، جس کے مطابق پاکستان میں ڈبا پیک دودھ اور کھانے میں کیمیکل فارمولین پایا جاتا ہے، جو ایک کینسر پیدا کرنے والا کیمیکل ہے۔رپورٹ کے مطابق زیادہ دودھ حاصل کرنے کی لالچ میں بھینسوں کو بوسٹن اور آکسی ٹاکسن نامی انجکشن لگا ئے جاتے ہیں، جن سے بھینسوں کو کینسر ہو رہا ہے اور بچے انہی بھینسوں کا دودھ پیتے ہیں۔زیادہ دودھ کے لالچ میں بھینسوں کو ایسے انجکشن لگائے جا رہے ہیں جن سے انہیں کینسر کا مرض لاحق ہو رہا ہے ،بھینسیں کینسر سے مر بھی رہی ہیں اور کینسر زدہ بھینسوں کا دودھ فروخت کیا جا رہا ہے جو زیادہ تر بچوں کو پلانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
یہ انکشافات سی ای او ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان اور ڈپٹی سیکریٹری لائیو اسٹاک پنجاب نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کے اجلاس میںکیے۔سی ای او ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان ڈاکٹر اسلم افغانی نے بتایا جانوروں کی بہت سی غیر رجسٹرڈ اور غیر قانونی ادویات ملکی مارکیٹ میں دستیاب ہیں، ان پر پابندی لگانی چاہیے۔ڈپٹی سیکریٹری لائیو اسٹاک پنجاب نے کہا ڈبہ بند دودھ اور کھانا مضر صحت ہونے سے متعلق متعدد بار لکھ کر دے چکے ہیں، بوسٹن انجکشن کی رجسٹریشن ہی مجرمانہ فعل ہےاور اس پر باقی صوبوں نے پابندی لگا دی مگر سندھ نے حکم امتناع لے رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کانگو وائرس والے ممالک سے گوشت آتا ہے پکڑا جاتا ہےلیکن پھر استعمال بھی ہوتا ہے۔ڈائریکٹر سندھ لائیو اسٹاک نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے تحت صوبہ سندھ کو اختیارات نہیں ملے، صوبے میں ویٹرنری لیبارٹری ہے نہ سہولیات۔ڈی جی لائیو اسٹاک بلوچستان نے بتایا کہ بلوچستان سے بڑے پیمانے پر جانور ایران اسمگل ہو رہا ہے، ایران پاکستانی جانوروں کا گوشت ایرانی گوشت کے نام پر عالمی منڈیوں میں فروخت کر رہا ہےجبکہ پاکستان اس زر مبادلہ سے محروم ہے۔