تحریر: شاہ بانو میر
کچھ ہفتے پیشتر شاہ بانو میر ادب اکیڈمی ٹیم کے رکن اور در مکنون کی پہچان عبدل الحمید شاہد صاحب نے تھیلسیمیا کے حوالے سے ایک کتاب کا سرورق شئیر کیاـ بچے تو کسی کے بھی ہوں ان کی قومیت نہیں دیکھی جاتی بس ان کا معصوم فرشتوں جیسا چہرہ اپنی جانب کھینچتا ہےـ مگر تصویر دیکھ کر بچوں کی مایوس صورتیں اُس پر الفاظ کہ اللہ میں صبر کروں گی یہ حروف نہ تھے نشتر تھے کہ دل کاٹ کر رکھ دیا٬ جب اس کتاب پر بات کی تو دل دکھ کے رہ گیاـ میرے ملک کے سیاستدان اپنی سیاست کیلیۓ دن رات عوام کو جگائے رکھتے بریکنگ نیوز کے نام پر تہلکہ خیز احمقانہ خبروں کا طوفان جاری و ساری رہتاـ کس لئے؟
پیسے کیلیۓ کوئی معیار نہیں کوئی اقدار نہیں کوئی روایات نہیں جھوٹ پر سونے کا پانی چڑھا کر خوبصورت نازنینوں کو راتوں رات سپر سٹار بنا دیا جاتا ـ اربوں کی سرمایہ کاری وڈیوز کی صورت ہوتی ـ غریب مچھیروں کی جھلستی دوپہروں اور یخ بستہ دنوں کی کمائی ان کے سوکھے جسموں سے روح کی طرح کھینچ کر حکام بالا ان کی کمائی کو آپس میں ففٹی ففٹی کر کے لوٹ لیں ایسے ذہنی معذور معاشرے میں ایسی کتاب ایسے عنوانات کو عموما ٹینشن کا سبب قرار دے کر نگاہوں سے دور ہٹا دیا جاتا مبادا کہیں زیادہ سوچنے سے پیشانی پر تفکر کی لکیر نہ ابھر آئے ـ جس ملک کی مائیں صرف پیسے کو آرائش و زیبائش پے خرچ کرنا جانتی ہوں ـ شعور سے عاری قرآن پاک سے بے بہرہ یہ وجود صرف جسم ہیں ٬ حِس سے درد سے کالی ڈھانچے جن پر مخملیں لبادے اور ریشمیں پیراہن وجود کی شان بڑھا رہے ہیں٬ دن رات ہر فرد کو اپنی ترقی اپنی کامیابی اور دوسروں کو نیچا دکھا کر خود کو بلند و برتر ثابت کرنا ہے جہاں ماحول یہ ہو وہاں ایسی باتیں ایسی کتابیں کوئی نہیں پڑہتا
مُبادا سوئی ہوئی بے حسی کہیں شعور نہ پا لےـ
معیشت کی مستقل تباہی نے رویے سرد کر دیے سہولیات کے فقدان اور دولت چند ہاتھوں میں سمٹ جانے سے عام انسان جو کبھی مذہبی سوچ کے ساتھ ہمدردی کا عنصر رکھتا تھا وہ آج بے حس مجسمہ میں تبدیل ہوگیا ـ ایسے میں کسی حساس سوچ کو حساس معاشرتی مسئلے کو اجاگر کرنا جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے ـ اظہر محمود صاحب نے ایک کتاب تحریر کی ہے جس میں سچی کہانیاں تحریر ہیں یہ کہانیاں نہیں ہیں کئی گھروں میں دن رات لمحہ لمحہ چپ چاپ آتی ہوئی موت کی وہ دستک ہے ـ جو اس گھر میں خوف کا سہم کا بے بسی کا مایوس گھیراؤ صرف ِوہ محسوس کرتے ہیں جو کسی کرب سے آشنا ہیں ـ میں نے کچھ ہفتے پہلے آرٹیکل لکھاتھیلیسیمیا کا شکار بچوں کیلیۓ جسے بہت پسند کیا گیا اور شعور کی جانب عوام کا بڑہتا ہوا رحجان مجھے خوش کر گیا کہ اس کو شئیر کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھیـ
میں ذہنی طور پے پرسکون تھی جیسے بہت بڑا معرکہ سر کر لیا ہوـ
اس کتاب کا عنوان اس ماں کی بہادری اور جرآت کو سلام ہے جس کے تین بچے تھے دو اللہ کو پیارے ہو گئے تھیلسیمیا کا شکار ہو کر اور تیسرا بچہ اسی جاں لیوا بیماری کا شکار ہے جسے وہ خاتون گھروں میں کام کاج کر کے کچھ ماہ بعد موت کو عارضی طور پے شکست دے کر زندگی کے کچھ مہینے مستعار لے جاتی ہے ـ ماں کو دعا کہنا چاہیے یہ ہے ماں عظمت کا مینارہ محبت کی مضبوط فصیل جو اپنی جان پر جھِیل کر نجانے کیا کھاتی ہے اور کیا بچاتی ہےـ پھر بھی ہر پل دل سہما ہوا اور دماغ سوچوں کا گہوارہ کہ بچے کو کچھ نہ ہو جائے؟ ایسی کئی مائیں ہیں جو غربت کی ماری ہیں وسائل کی کمی ہے ـ مگر ان کی اولاد موت کے منہ میں رینگ رینگ کر جا رہی ہے اور وہ اسکو مسلسل بچانے کی تگ و دو میں مصروف ہےـ یہ کتاب جو برائے فروخت اس لئے ہے کہ اس سے ملنے والی رقم ان لاچار بے بس بچوں کیلیۓ زندگی کا عنوان بنے گیـ
اس ملک کی خواتین کو کہیں سے شعور لا دیں ـ کمیٹیاں زیورات ملبوسات قیمتی جوتے محض مقابلے بازی میں بہت خرید لئے دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی پاکستان آج بھی کمزور ہے وجہ ہے اس کی وہ ماں وہ گھر کی ذمہ دار جس کو شعور نہیں دیا گیا نہ اپنی ذات کا نہ ملک کا نہ قوم کا لہٰذا وہ آج بھی سو سال پرانے انداز میں جی رہی کہ اگر پیسہ ہے تو عیاشی کیلیۓ ہے موج مستی کیلیۓ ہےـ حالانکہ اسلام بے جاہ اسراف کرنے والے کو شیطان کا بھائی کہتا ہے ـ لیکن موجودہ دور بے حسی کی عالمی مثالیں قائم کر رہا ہے میڈیا بدیسی سوچ کے ساتھ گھر گھر ناچ گانا حتیٰ کہ اسلام بھی اب انہی ناچنے گانے والوں کے ذّمے لگا دیا گیا کیونکہ ہم دیکھنا چاہتے ہیںـ
نتیجہ آج پاکستان کہیں کھو گیا برگر فیملی ہر گھر میں نظر آتی ہے خواہ وہ امیر ہو یا غریب ـ جب معاشرہ خواہشات کے حصول پر مبنی ہو تو وہاں ایسی کتابوں کو پڑھنے والے تلاش کرنے پڑتے ہیں بلکہ اگر میں مکمل بے حسی اور لا تعلقی کو کھل کر بیان کروں تو شائد ایسی کتابوں کیلیۓ ہمیں تحریر کرنے سے پہلے ایک سال اس ملک و قوم کیلیۓ کوئی کمپین مرتب کرنی چاہیے ـ جس سے سوئے ہوئے محل کے ان چلتے پھرتے بے حس مجسموں کو جگایا جا سکے ـ اور جھنجھوڑ کر ان معصوم بچوں کے لئے سال میں صرف دو بار خون دینے کا احساس دلایا جائے انہیں بتایا جائے کہ اعلیٰ قومیں اپنی نسل کی حفاظت خود سے بڑھ کر کرتی ہیں کیونکہ ان سے ان کا بڑہاپا اور شاندار ہوگا ـ اور اگر نسل ہی ختم ہو جائے محض ہماری سستی سے یا تساہل اور لا علمی سے تو کن کمزور سہارے مستقبل گزرے گا؟۔
اظہر محمود صاحب اس کتاب کو اتنا بِکنا چاہیے کہ بیرونِ ملک پاکستانی اپنی قوم کے زندہ ہونے کو محسوس کر سکیں۔ خواتین کو گھروں میں پمفلٹ پہنچائیں بچوں کو سکول میں جا کر بتائیں بحالی شعور کا منظم جامع پروگرام اُن افراد کے ساتھ ،ٹیم کی صورت شروع کریں جو لوگ دکھ کا مفہوم جانتے ہیں ـ پاکستان کو آپ جیسے لوگوں کی اشد ضرورت ہے ـ جو کسی نہ کسی مقصد کے ساتھ اس ملک کی گرتی ہوئی ساکھ کو قدرے سہارا دے کر انسانیت ابھی زندہ ہے اس سوچ کو پھیلائیں ـ اگر ایک سیاسی لیڈر محض باتوں سے پوری قوم کو جگا سکتا ہے برقعہ پوش خواتین کو چھوٹے بچوں کو گھروں سے باہر لا کر دما دم مست قلندر کر سکتا تو یہ اشارہ ہے کہ قوم ابھی بھی پرجوش پُرعزم ہے اپنے ملک کیلیۓ آپ ایک عظیم مقصد کے حصول کیلیۓ سرگرداں ہیں لیکن افسوس کہ اُس دور میں جب نفسا نفسی ہے۔
لیکن اگر ہماری مائیں بہنیں جو بہت زیادہ شاپنگ کرتی ہیں ـ وہ اپنی فرینڈز کو بیش قیمت تحائف دینے میں فخر محسوس کرتی ہیں ذرا ان کے مزاج کو اس بار تبدیل کریں وہ گفٹ کے ہمراہ اس کتاب کو بھی لے جائیں اور دنیا کے ساتھ دین بھی کامیاب کریں ـ اس کتاب کی تحریریں انسانیت کیلیۓ تحفہ خاص ہیں ـ شعور بیدار کر کے احساس جگانے والی اور اس احساس کو درد کی صورت یکجا کر کے جس طرح یہ کتاب مرتب کی گئی ہے اس کی قیمت کا تعین کیا ہی نہیں جا سکتا ٌـ ایسی کتابیں مہذب قومیں اپنے لوگوں کیلیۓ ہزاروں کی تعداد میں فری چھپوا کر شعور بانٹتی ہیں ـ تا کہ ملک کا بھلا ہوـ آپ سب زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیں نجانے کتنی ماوؤں کی گود آپ کی مدد سے آپ کے خون سے زندگی کی جانب لوٹ آئیں ذرا سوچئے ہم سب نے اتنی عمر گزار دی صرف من مرضی کی زندگی گزاری جس میں شعور کو تدبر کو تفکر کو کہیں دخل نہیں تھا
اسی لئے تو آج ہم ناکام ہوئے آئیے احساس جگائیں اپنے ساتھیوں کو رشتے داروں کو دوستوں کو سب کو ہر جگہہ یہ سمجھانے کی کوشش کریں کہ وہ کتنے بڑے عظیم انسان ہیں کہ وہ اپنے خون سے کسی ماں کے دل کا درد دعا کی صورت حاصل کر سکتے ـ 500 1000 کا پِزا اکیلے منگوا کر کھانے والے اُس گھر کی طرف دیکھیں کہ جہاں دو وقت کی روٹی کے لالے ہیں اوربچے کے جسم سے خون ختم ہو چکا آپ سوچیں ایک رات فیملی کو ڈنر نہ کروائیں ایسے اداروں میں اپنے بچوں کو ساتھ لے جا کر ان کی امداد کریں زندگی بانٹیں یہ کتاب صاحبِ حیثیت لوگ زیادہ تعداد میں خرید کر لائبریریوں میں رکھوائیں فری بانٹیں گھر میں اپنی خواتین اپنے بچوں سے یہ ٹاپک ڈسکس کریں۔
بات سے بات چلے گی تو شائد اس ملک میں یہ ایک ننھی منی سی سوچ اور امید کی کرن وسعت پائے اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے طول وارض میں خون دے کر اپنے ملک کی نازک کلیوں کی جان بچانے والوں کی قطاریں ختم ہونے کا نام نہ لیں اللہ میں صبر کروں گی اس کتاب کی ایسی ریکارڈ توڑ سیل ہونی چاہیے کیونکہ یہ کتاب ان گنی چنی کتابوں میں سے ہے جن کا حرف حرف دکھ سچ اور درد سے عبارت ہے ـ ایسی کتابیں گھروں میں لانے سے خواتین کو اپنے علاوہ دوسری عورتوں کے دکھ درد پڑھنے کو ملتے جو موجودہ سنگدل دور میں گداز کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں ـ بچوں کو بتائیے کہ اُن جیسے کتنے پھول کھلِنا چاہتے ہیں لیکن ضرورت ان کو ہم سب کی ہے۔
غیور قوم ہے جو ہر پریشانی کی گھڑی میں سیسہ پلائی دیوار بن جاتی یہ بھی قدرت کی آزمائش ہے اپنے پیارے پیارے بچوں کے کھِکھلاتے چہروں کی جانب دیکھتے ہوئے محض ایک لحظہ ان ماوؤں کا سوچیں جو آپ کے بچوں جیسے ہی پھولوں کے والدین ہیں لیکن فرق یہ ہے کہو قدرت کی آزمائش کاشکار اور آپ کے تعاون کے منتظر ہیں ـ امت مسلمہ تو بانٹ کر کھانے کی عادی ہے آج ہم اپنےتاریخی اسباق بھول گئے آئیے یاد کریں مل کر 1 ہم نے اس کتاب کو ضرور خریدنا ہے اور اپنے دیگر عزیزوں کو بھی کہنا ہے یہ صدقہ جاریہ ہے آپ کا مسلسل 2 ہم نے سال میں دو بار نہیں تو ایک بار خود پے فرض کر لینا ہے کہ ان پھولوں کی خوشبو اور تازگی کو برقرار رکھنے کیلئے انشاءاللہ ہم انہیں خون ضرور دیں گےـ گناہوں سے بھرا ہوا ہمارا یہ وجود شائد اس طرح اللہ کے ہاں قبولیت عمل پا لے اور سرخرو ہو جائے۔
یاد رکھئے ہماری تکالیف اور پریشانیوں سے بچانے اور سکون پھیلانے آسان سے کسی کو نہیں اترنا
ہمیں کو وہ اوصاف اپنانے ہیں جو بانٹیں محبتیں ایثار قربانی تا کہ صرف ہم ہی نہیں ہمارے ہم وطن بھی ہماری اور ہمارے بچوں کی طرح پر اعتماد اور با مقصد زندگی کو جی کر اللہ کی اس دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو کر آپ کیلیۓ دل کی گہرائی سے کریں وہ “” دعا”” جو آپکے گناہوں کو دھو کر آپکو مصفّا کر کے اللہ کے سامنے سرخرو کر دے آئیے عہد کریں کہ ہم اس کتاب کو لیں گے غور سے مطالعہ کریں گے اس درد کو دل پر محسوس کریں گے ـ اور پھر عمل میں دیں گے خون انشاءاللہ تا کہ پاکستان میں اس مرض میں مبتلا بچے پا سکیں زندگی کی راحت آپ کی وجہ سے انشاءاللہ۔
تحریر: شاہ بانو میر