امریکی صدارتی انتخاب میں ووٹ دینے والوں میں سے کئی ایک نے مختلف مقامات پر ہوئےاُن مسائل کا ذکر کیا جو اُن کی دانست میں اہمیت کے حامل ہیں، اور بتایا کہ اُنھوں نے کسے اور کیوں ووٹ دیا۔
نیو یارک میں، ایک ووٹر جیمی نے کہا کہ اُنھیں خوشی ہے کہ بدترین انتخابی مہم اپنے اختتام کو پہنچی، اس امید کا اظہار کرتے ہوئے کہ فتح ایک خاتون کی ہوگی، یعنی کلنٹن جیتیں گی، اُنھوں نے کہا کہ ’یہ انتہائی بدترین مہم تھی، مجھے خوشی ہے کہ آخر کار یہ ختم ہوئی‘۔
مشی گن کے شہر، ڈیربورن میں سعودی عرب میں پیدا ہونے والی زہرہ الکاشی کا کہنا ہے کہ اُنھیں ری پبلیکن پارٹی کے امیدوار، ڈونالڈ ٹرمپ کے بارے میں بہت سے شکوک و شبہات ہیں، جنھوں نے ماضی میں مسلمانوں کے ملک میں داخلہ پر بندش عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا، الکاشی نے ڈیموکریٹک امیدوار، ہیلری کلنٹن کو ووٹ دیا۔
بقول اُن کے’میں نے اب تک دو مرتبہ ووٹ دیا ہے، پہلا ووٹ اوباما کے لیے تھا، جو پہلے سیاہ فام صدر تھے، جب کہ دوسرا ووٹ متوقع پہلی خاتون صدر کے لیے ہے، اور میرے خیال میں یہ انتہائی حوصلہ افزا معاملہ ہے‘۔
واشنگٹن ڈی سی سے کچھ ہی فاصلہ دور، ورجینیا کے شہر مکلین میں ایلس رچرڈ سالویہ نے ٹرمپ کی حمایت میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔اُنھوں نے بتایا کہ ’اُن افراد سے امریکہ کو دور رکھنے کے لیے جو امریکہ کو نیچے لے جانے کا سبب بنے۔
اوباما اور کلنٹن امریکہ کو ڈبو رہے ہیں، دروازے کھلے رکھ کر اور اپنے انتظامی اقدامات کے نتیجے میں۔ ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ کو دنیا کا عظیم ترین ملک بنائیں۔ جب امریکہ کے حالات بہتر ہوں گے پھر ہی عالمی صورت حال بہتر ہوتی ہے۔