آصف علی بھٹی
وفاقی دارالحکومت میں نادیدہ طاقتوں کے زور آور بازئوں کے بل بوتے پر محض دو سال بعد دوسری مرتبہ “دھرنے” کے امڈتے طوفان اور اس کی ہر طرف پھیلی گرد کے درمیان امریکہ روانہ ہوا تو کم و بیش 30گھنٹوں کی مسافت کے بعد ٹیکساس کےڈیلس ائیرپورٹ پر دھلی فضا اور خوشگوار ہوا کےجھونکوں نے میرے محترم برادرز کے ہمراہ استقبال کیا، کلی مقصد امریکہ کی تاریخ کے ہنگامہ خیز،اہم اور مشکل ترین صدارتی انتخابات کی کوریج ہے۔
قارئین آپ نےیقیناً بارہا سنا ہوگا کہ امریکہ دنیا کا بادشاہ ہے۔ لیکن حقیقت عین اس کےبرعکس ہے کیونکہ بادشاہ کو کبھی اپنے انتخاب کی ضرورت نہیں ہوتی وہ تو بلاشبہ، بلامقابلہ اور بلاشرکت غیرے بادشاہ ہوتا ہے، گزشتہ کالم میں لکھ چکا ہوں کہ امریکہ میں جمہور کی رائے کی مضبوط بنیاد پر کھڑےجمہوری نظام کو مذہب کی حیثیت حاصل ہے، 50ریاستوں پر مشتمل براعظم امریکہ میں ہر چار سال بعد ہونے والے صدارتی انتخابات میں امریکی عوام معمول کی زندگی کو ڈسٹرب کیے بغیر مختلف مرحلوں میں مخصوص پراسیس کے تحت پرامن و پرسکون انداز میں اپنے قیمتی ووٹ سےصدر کا انتخاب کرتے ہیں۔ عوامی طاقت کے مظہر اس نظام پر کامل یقین کا اندازہ اس امر سے لگائیں کہ مقامی نظام حکومت کے ارکان، ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے ارکان کے انتخاب کے ساتھ عوام اپنے علاقے کی عدلیہ کے ججز کا بھی خود انتخاب کرتے ہیں۔
قارئین کرام، 2016کے صدارتی انتخابات کی سیاسی گہماگہمی اور گرما گرمی نے پہلی مرتبہ نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا میں ایک ہیجان برپا کرکے خود کو توجہ کا مرکز بنا رکھا ہے، تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس مرتبہ مقابلہ دو بڑی سیاسی جماعتوں ڈیموکریٹس یا ریپبلکن کے درمیان نہیں بلکہ دو مختلف سوچوں، رویوں اور طرز عمل کے درمیان ہے، ہر رنگ کے امریکی اور یہاں مدت سے آباد مسلم و پاکستانی کمیونٹی کی سرکردہ شخصیات بھی حیرت انگیز طور پر دو صدیوں سے رائج مضبوط جمہور کے نظام میں اچانک پیدا ہونے والی ہنگامہ خیزی پر قدرے حیران اور پریشانی کا شکار نظر آتی ہیں تاہم پاکستان میں بدنام زمانہ جملے “جمہوریت کو خطرہ لاحق” کے پروپیگنڈے کا یہاں شائبہ تک نہیں، تاہم گزشتہ ایک سال سےپیداہونے والے سیاسی تبخیری ماحول نے کئی سوالات اٹھا کر زبانیں گنگ اور ذہنوں کو کسی حد تک مفلوج کرکے رکھ دیا ہے کہ اندازے اور تجزئیے جاری ہیں کہ کیا اس مرتبہ منکسرُ اور متمول المزاج مگر آہنی ارادوں کی حامل خاتون امریکی تاریخ کو بدل کر وائٹ ہاوس کی ملکہ بنےگی یا پھوہڑ مزاج، خواتین کے بارے میں توہین آمیز رویوں کا مارا ضعیف العقل اور خودپسند سفید فارم “ہارڈ لائنر” اپنے فاطر ارادوں کو عملی جامہ پہنانے اوول آفس کی کرسی سنبھالنے میں کامیاب ہوتا ہے۔
امریکی ادارہ شماریات کےمطابق تقریباً 32 کروڑ کی آبادی میں سے نصف کے قریب ووٹ دینے کے اہل ہیں، مجموعی آبادی کی 51فی صد خواتین میں سے 30 فی صد ووٹ دینے کا حق رکھتی ہیں جو بہت اہمیت کا حامل ہے جبکہ امریکہ میں اقلیتوں ہسپانوی، سیاہ فام اور میکسیکو کے بعد 5 لاکھ مسلمان مختلف ریاستوں میں کئی نسلوں سے آباد ہیں کا ووٹ بھی یقینی طور نتائج پر اثرانداز ہوسکتا ہے538نشستوں پر ہونے والے انتخاب میں 270 نشستوں کی سادہ اکثریت سے نیا صدر منتخب ہوگا، عوام کےپسندیدہ امیدوار کےطور پر کےباوجود 12 جبکہ 270 الیکٹرول ریاستوں جن میں کیلی فورنیا 55 الیکٹرول نشستوں کے ساتھ سرفہرست جبکہ نیویارک 31، ٹیکساس 34 اور پینسلونیا 21 کے ساتھ چوتھی بڑی ریاست ہے،کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔
سابق صدر بش کے ٹیکساس اور دیگر ریاستوں کےدورہ کے دوران زمینی حقائق کا جائزہ لیا تو یقین کی حد تک کہنے پر مجبور ہوں کہ اب کی بار ریپبلکن پارٹی کےصدارتی امیدوار ٹرمپ نے امریکہ کی برسوں سے آبیاری کرنے والی اقلیت کو نہ صرف جگا دیا ہے بلکہ انہیں اپنے امریکی ہونے کا احساس دلانے کےقابل بنا کر بڑی تعداد میں ووٹ کی خاطر گھروں سے بے اختیار نکلنے پر مجبور کردیا ہے اور ٹرمپ کی ذہنی پسماندگی اور تنگ نظر خیالات و جذبات نے ان اقلیتوں میں ایسی بیداری پیدا کی کہ بقول ہمارے دیرینہ دوست راجا کے یہاں اب ہمارے اور ہم جیسوں کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہے” شکریہ ڈونلڈ ٹرمپ”
دلچسپ بات یہ ہےکہ ماضی کے برعکس ہر طرف ووٹرز کی طویل قطاریں، مساجد، چرچوں، مندروں و گردواروں میں ووٹروں کو ووٹ کی ترغیب دینےکی مہم ارلی ووٹنگ سے اتوار کے روز تک جاری رہی ہے، ڈیلس کی بڑی جامع مسجد کےباہر ووٹ کی اہمیت اور آگاہی کے پمفلٹ تقسیم کرتے امریکی مسلم کاکس کے صدر فیاض سید کا کہنا ہے کہ اقلیتی ووٹرز ہیلری کی محبت سےکہیں زیادہ اپنا قیمتی ووٹ ٹرمپ سے نفرت کے اظہار میں دینے پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں باہر نکلے ہیں، اس کا بڑا ثبوت امریکہ کے انتخابات کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ارلی ووٹنگ میں 40فی صد سےزائد ریکارڈ ووٹنگ ہے توقع ہےکہ پولنگ کےحتمی روز صدارتی انتخاب کے لیے 60 فی صد ووٹنگ کا نیا ریکارڈ قائم بھی ہوجائے۔
قارئین کرام، جیساکہ اوپر ذکر کیا کہ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں محض پاپولر ووٹ نہیں بلکہ سوئنگ یا ٹاس اپ اسٹیٹس سمیت زیادہ الیکٹرول ووٹس کی حامل ریاستیں امیدوار کی قسمت کے فیصلےمیں اہم کردار ادا کرتی ہیں تاہم نئےصدر سے متعلق اندازے کچھ بھی کہیں اس بڑے معرکے کے نتیجے کا عندیہ اس امر سے واضح ہے کہ پاکستانی کمیونٹی و ریپبلکن پارٹی کے رہنما اور امریکہ کی بڑی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ عہدوں پرفائز پاکستانی ڈاکٹر حسن ہاشمی سمیت کئی سینئر ریپبلکن قائدین خود اپنی جماعت کے نامزد صدارتی امیدوار کی سخت مخالفت کر رہے ہیں بلکہ اس کو سیاسی ہنر، حکمت اور بصارت سے عاری قرار دے رہے ہیں، امریکی ریاست فلوریڈا میں ریپبلکن پارٹی کے ٹکٹ پر مئیر منتخب ہونے والی پہلی پاکستانی خاتون سلمی ہاشمی پارٹی کے فیصلے سے سخت اختلاف کرتے ہوئے واضح اظہار ان الفاظ میں کرتی ہیں کہ ڈونلڈ جیسا بدزبان اور بدتہذیب شخص صدارت کےقابل نہیں اور یقینی طور پر ہیلری ہی اس کی صحیح حقدار ہیں۔ ادھر مس ہیلری کےخلاف ایف بی آئی کی تحقیقات بند کئے جانے کے اعلان نے ڈیموکریٹس کی توانائیوں میں نئی روح پھونک دی ہے 27سال سے امریکہ میں مقیم کامیاب پاکستانی بزنس مین اور ہیلری کلنٹن کی سیاسی مہم کے اہم جزو طاہر جاوید کا دعویٰ ہے کہ 8اکتوبر کو صدارت کا ہما مس کلنٹن کے سر بندھے گا اور اس تاریخی کامیابی کے حصول میں ڈیموکریٹس کی بھرپور انتخابی مہم کے ساتھ مسٹر ٹرمپ کا “کردار” بہت اہم ہوگا وہ اس پر امریکی عوام کے ساتھ ساتھ ان کے بھی شکرگزار رہیں گے “شکریہ ڈونلڈ ٹرمپ”…..