تحریر : مقدس فاروق اعوان
تھر کے علاقے میں بھوک کا رقص جاری ہے۔ یہ دنیا کا ایسا منفرد رقص ہے جس کو دیکھنے والا کوئی بھی نہیں۔اس بھوکے رقص پہ پیسا لٹانے والا کوئی نہیں ہے۔یہ بھوک پیاس اب تک سیکڑوں ننھی جانیں نگل چکی ہے۔ریت کا زرہ زرہ آگ اگل رہا ہے۔ایسے میں بھوک اور پیاس تھر کے رہنے والوں کا مقدر بن چکی ہے۔بے حسی کا عالم دیکھیے ایسے میں حکومت کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی۔اپنے ایک دورے پہ کروڑوں روپے خرچ کرنے والے حکمران تھر کے رہنے والوں کا درد نہ ہی سمجھ سکتے ہیں نہ ہی محسوس کر سکتے ہیں۔تھر میں غذا کی قلت کے باعث اب تک کئی بچوں کی ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔وہاں کا ہسپتال بھی ویران پڑا ہے۔اس لیے تھر کے لوگوں کو کسی بھی قسم کی طبی سہولیات فراہم نہیں ہیں۔جو ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کا باعث بنتی ہیں۔
اس وقت ملک مختلف مسائل میں گھرا ہوا ہے۔اور حکومت صرف کرپشن کے کیس،کرکٹ کے مسائل،سیاسی رہنماؤں کے پارٹیاں بدلنے جیسے مسائل کی ہو کے رہ گئی ہے۔ایسے میں تھر کا مسئلہ تو شاہد دور دور تک بھی حکومت کی طرف سے حل ہوتا نظر نہیں آتا۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں پر کسی ایک بڑے مسئلے کو منظر عام سے ہٹھانے کے لیے کوئی دوسرا مسئلہ منظر عام پر لے آیا جاتا ہے۔تھر کا مسئلہ بھی حل ہونے کا منتظر ہے۔مگر حکومت کوتو شاہد یہ بھی نہ معلوم ہو کہ تھر میں آخر مسئلہ کیا چل رہا ہے۔اس سلسلے میں تھر کے لوگوں کے درد کا احساس جگانے کے لئے پاکستان فیڈرل کالمسٹ آف کونسل نے ایک خصوصی مہم ” تھر بنجر نہیں ہے ” کا آغاز کیا ہے۔
جس کے تحت یکم مارچ سے اکتیس مارچ تک پی ایف سی سی کے تمام ممبران کی طرف سے تھر کی عوام کی بھلائی کے لیے کالم لکھے جائیں گے اور مختلف سیمینارز منقعد کیے جائیں گے۔ یہ خصوصی مہم سب میں تھر کے مکینوں کے درد کا احساس دلانے کے لیے شروع کی گئی ہے۔جو کہ خوش آئند بات ہے۔ تھر اس وقت شدید عدم توجہ کا شکار ہے۔گزشتہ تین سال سے تھر میں بارش نہیں ہوئی۔اس لئے اس وقت تھر میں ہر طرف قحط کا سماں ہے۔تھر میں جو بچے غذائی قلت اور مناسب صحت کی سہولیات فراہم نہ ہونے کی وجہ سے جو بچے موت کی وادی میں چلے گئے۔
ان کی موت کا آخر زمہدار کون ہے؟ابھی بھی سیکڑوں بچے زندگی اور موت کی کشمکش میںہیں۔کوئی ان والدین کا درد تو محسوس کر کے دیکھے جو روز اپنے بچوں کو مرتا دیکھتے ہیں۔اس سال دو ماہ میں ٢٠٠ ننھے بچے موت کی وادی میں چلے گئے ہیں۔ان تمام مسائل سے تنگ آ کر کئی لوگوں نے خود کشی کا راستہ اپنا لیا ہے۔ظاہر کوئی کب تک خو د کو اور اپنے پیاروں کو بھوک سے تڑپتا دیکھے۔اپنے بچوں کو کوئی کب تک سسکتے ہوئے تڑپتے ہوئے دیکھ سکتا ہے۔اس لیے تھر میں کئی لوگ خود کشی کو اپنے لیے بہتر تصور کرتے ہوئے خود کشی کر بیٹھے ہیں۔جن کی تعداد اب تک میڈیا پہ نہیں بتائی جا رہی۔
کیا یہ ایک واقعی اسلامی ریاست ہے؟ اسلامی ریاست کو چلانے کے قانون تو واضح ہیں۔اس وقت مجھے ایک بات یاد آتی ہے کہ خلیفہ حضرت عمر فاروق دریائے فراغت کے کنارے مرنے والے کتے کی موت کا زمہ دار بھی خود کو سمجھتے تھے۔ کیا تھر واقعی ایک اسلامی ملک کا حصہ ہے؟ جب کہ ایک اسلامی ملک کے نظام حکومت کو چلانے کے لئے تو قانون واضح ہیں۔ جیسے تھر کے مکینوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے بلکل ایسے ہی حکومتی ارکان کو بھی کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ تھر میں جو اموات ہوئی ہیں ان کی زمہ داری وفاقی اور صوبائی حکومت پہ عائد ہوتی ہے۔پر میرے خیال سے تھر کو امداد پہنچانے سے پہلے تھر کو احساس کی ضرورت ہے۔
جب تک یہ احساس نہیں جاگتا تب تک تھر کے مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔تھر کے بنیادی مسائل جن میں پانی و غذا کی قلت اور صحت کے مسائل سر فہرست ہیں ان کا حل ہونا بہت ضروری ہے۔ورنہ موت اس طرح تھر کے رہنے والوں پہ منڈلاتی رہے گی۔ا تھر کے معاملے میں جس قدر بے حسی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے وہ واقعی باعث شرمندگی ہے۔ اس لیے ان تمام مسائل کا حل صرف ”احساس ” جاگنے کی صورت میں ممکن ہے۔کیونکہ ہمارے زہن مردہ ہو چکے ہیں۔ہمارے زہنوں پہ خود غرضی اور بے حسی کے پردے پڑ چکے ہیں۔اس لیے احساس کا جاگنا بہت ضروری ہے۔جب تک ہمارے اندر احساس نہیں جاگتا تب تک ہم تھر کے رہائشیوں کا درد محسوس نہیں کر سکتے۔اس لیے تھر کو امداد سے پہلے احساس کی ضرورت ہے۔
تحریر : مقدس فاروق اعوان