تحریر: عائشہ احمد
تھر میں موت کے ڈیرے، موت کے سائے دیکھتا ہوں کہ کوئی پرسان نہیں غریبوں کا سوچتا ہوں کہ مجھے جینے کا حق ہے بھی ہے کہ نہیں صوبہ سندھ کے مشہور صحرا تھر میں موت کا رقص جاری ہے اور یہ اپنے اندر سینکڑوں معصوم پھولوں کا لہو سمائے کسی مسیحا کا منتظر ہے۔ لیکن دور دور تک کسی مسیحا کے نظر آنے کا ابھی تک کوئی امکان نہیں ہے۔ رواں ماہ 101 کے قریب معصوم بچے غذائی قلت کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔گذشتہ سال بھی 1 ہزار کے قریب ننھے پھول بھوک، غربت اور افلاس کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ میں؟ آپ؟ یا ہمارے نام نہاد جمہوری سیاستدان! عوام تو چین کی نیند سو رہی ہے اور سندھ کی صوبائی حکومت اپنی مستیوں میں گم ہے اس لیے راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔
پیپلز پارٹی کے سینئر صوبائی وزیر نثار کھوڑو فرماتے ہیں کہ تھر میں بچوں کی اموات کی ذمہ دار حکومت نہیں ہے۔ اب بھلا اس بھولے وزیر کو کوئی کیسے سمجھائے کہ آپ کی پارٹی کا منشور ہی روٹی، کپڑا اور مکان ہے تو کیا تھر میں معصوم بچے خوراک نہ ہونے کی وجہ سے نہیں مر رہے۔ لیکن ایسے نام نہاد جمہوری سیاستدانوں کو بھوک کی تکلیف کا کیا احساس ہوگا جو محلوں میں رہتے ہیں اور جِن کی کھانے کی میزوں پر سینکڑوں قسم کے کھانے ہوتے ہیں اور باہر کے ملک سے علاج کرواتے ہیں۔ وہ کسی افلاس ذدہکا دکھ کیا جانیں گے؟ کاش ہمارے نام نہاد جمہوری سیاستدان تھوڑا بہت اسلام سے بھی آگاہی حاصل کر لیتے تو وزیر موصوف کو اپنی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہوتا۔ لیکن جن کا ضمیر ہی مر جائے وہاں چاہے پورے ملک کے بچے بھوک اور غربت کے ہاتھوں مر جائیںکوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ اٹھارہ کروڑ عوام اور ملک کی تمام پارٹیاں تھر کے عوام کو سائبان فراہم نہیں کر سکتیں۔
پیپلز پارٹی گذشتہ 45 سالوںسے سندھ میں کرسی پر براجمان ہے اور ابھی تک لوگوں کو اُن کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے مےں بری طرح ناکام ہے۔ پی پی پی کی اعلی قیادت باہر بیٹھی تماشہ دیکھ رہی ہے۔ ایم کیو ایم بھی 30 سالوں سے حکومت میں ہے اور اس نے بھی سوائے اپنی جیبیں بھرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ رہ گئی مسلم لےگ ن تو وہ وفاقی حکومت ہے۔ اس لیے اس کا اس سارے معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اشرافیہ اپنی عیاشیوںمیں مصروف ہے اور عوام ان جمہوری سیاستدانوں کو ووٹ دے کر فرائض سے سبگدوش ہو چکی ہے۔ ملک اور ملک میں بسنے والے کروڑوں غریب اور بے سہارا لوگوں کا اﷲ مالک ہے۔ ہم کیسے مسلمان ہیں اور کیسے انسان ہیں؟ حضرت عمر فاروق نے فرمایا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھوکا مرجائے تو عمر اس کا ذمہ دار ہے۔
تھر میں غذائی قلت اور وبائی امراض پھیلنے سے معصوم بچوں کی اموات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ روزانہ تقریبا تین سے چار بچے مناسب خوراک اور علاج معالجہ کی سہولتیں نہ ملنے پر موت کے منہ میں جا رہے ہیں اور سائیں سرکار تماشہ دیکھ رہی ہے۔کیا سندھ صرف ایک جماعت کا ہے ؟ پی پی پی تو اپنے دور حکومت میں کچھ نہیں کرسکی اور نہ ہی صوبائی حکومت میں ہوتے ہوئے کچھ کر سکی ہے۔کیا مسلم لیگ نواز بھی اس سانحہ سے خود کو بری ا لذمہ سمجھ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لگ (ن)دونوں ہی اس بات کا دعوی کرتی ہیں کہ وہ پورے ملک کی نمائندہ جاعتیں ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی تھر میں لوگوں کو موت کے منہ سے نکالنے میں ناکام ہوچکی ہے تو وزیرِ اعظم کہاں ہیں؟ دوسرے ملکوں کے مسائل سلجھانے کی بجائے اگر تھر کے بے بس اور لاچار لوگوں پر بھی تھوڑی توجہ دے دیتے تو آج شاید تھر میں کوئی بچہ موت کو گلے نہ لگا تا۔ آج تھر میں بھی موت کے سائے کی بجائے زندگی مسکرا رہی ہوتی۔
مگر وفاق سمیت صوبائی حکومتوں کو بھی توفیق نہیں ہورہی کہ وہ تھر کی عوام کی طرف دیکھیں۔ ایسا لگتا ہے کہ تھر یتیم ہوگیا ہے اور بے ضمیر سیاستدانوں کی بے حسی تھر کے معصوم لوگوں کی زندگی چھین رہی ہے۔ میٹرو بسیں، اورنج ٹرینیں، لیپ ٹاپ اسکیم، جلسے، جلوس، پروٹوکول پر اربوں روپے خرچ کرکے ملک کی ترقی کی بات کرنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایک دن ہمیں مرنا بھی ہے اور اپنے رب کی بارگاہ میں اپنے کیے کا حساب بھی دینا ہے لیکن شاید ہمیں موت یاد نہیں، ہمیں حشر کا دن یاد نہیں، ہمارے لیے دنیا ہی سب کچھ ہے۔ ہمارا دین، ہمارا ایمان سب کچھ پیسہ اور دنیا ہے۔ پتا نہیں یہ سیاستدان اتنی دولت کہاں لے کر جائیں گے کیونکہ کفن میں تو نہ جیب ہوتی ہے اور نہ قبر میں تجوری ہوتی ہے۔
کیا ہمارے سامنے ہمارے پیارے نبی ﷺ اور خلفائے راشدین کا طرز حکمرانی موجود نہیں ہے۔ آخر کیوں ہم نے اس حقیقت سے نظریں چرا لی ہیں کہ ہم نے اپنے اعمال کا حساب بھی دینا ہے۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ کیا تھر کے معصوم بچے انسان نہیں؟ ان کا جرم یہ ہے کہ وہ کسی غریب کے گھر پیدا ہوئے۔ اگر یہی بچے کسی امیر یا سیاستدان کے گھر پیدا ہوئے ہوتے تو یہ بھی سونے چاندی کے برتنوں میں کھا رہے ہوتے۔ آج وہ تپتے صحرا میں بھوک اور غربت کے ہاتھوں مرنے کی بجائے ائیر کنڈیشنر کمروں مےں زندگی گزار رہے ہوتے۔ لیکن شاید ہمارے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں ہمارے دل بے حس ہو چکے ہیں، ہماری آنکھیں پتھر کی ہو چکی ہیں۔ جو ظلم دیکھ کر بھی اب نہیں بہتیں۔ ہم وہ مسلمان ہےں جو اﷲ اور اُس کے نبی پاک ﷺ کا نام تو لیتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے۔ دین اسلام کی اصل بنیاد ہی عمل ہے۔ کیونکہ عبادت تو فرشتے بھی کرتے ہیں۔
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
تھر کے بچے ہماری راہ تک رہے ہیں۔ اب بھی اگر ہم نے ان کا ہاتھ نہ تھاما تو خدا ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گا،کیونکہ اﷲ پاک حقوق اﷲ تو معاف کر دے گا لیکن حقوق العباد نہیں۔ تھر کے لوگ ہمارے اپنے لوگ ہیں، انہیں ہماری ضرورت ہے۔ اب بھی اگر ہم نے اپنی آنکھیں بند رکھیں تو تاریخ مےں ہمارا نام ایک بے حس قوم کے طور پر جانا جائے گا۔ جناح کا پاکستان ایسے ہی بکھرتا اور ٹوٹتا رہے گا۔ ڈاکو اور لٹیرے اسے ایسے ہی لوٹتے رہیں گے۔ تھر کے عوام کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔آئیے تھر کے مصیبت ذدہ لوگوں کے زخموں پہ مرہم رکھیں۔
تحریر: عائشہ احمد