ننگر پارکر کے انتہائی غریب ۔۔
کولھی خاندان سے تعلق رکھنے والی وہ خاتون ہے ۔۔
جس کا بچپن اس کے خاندان سمیت ۔۔
عمر کوٹ کے ایک وڈیرے کی نجی جیل میں گزرا۔۔
ظالم وڈیرے کی قید سے رہائی کے بعد ۔۔
اس لڑکی نے پاؤں سے بندھی بیڑیاں اتاری ۔۔
اور اپنے سر کی اجرک کو پرچم بنا لیا ۔۔
اب یہ پرچم پاکستان کے ایوانِ بالا میں لہرائے گا ۔۔
ہندو دلت جگنوکولھی کے گھر پیدا ہونے والی کرشنا ۔۔
سولہ سال کی عمر میں لال چند سے بیاہی گئ ۔۔
اس وقت وہ نویں جماعت کی طالبہ تھی۔۔
لال چند نے شادی کے بعد بھی ۔۔
کرشناکے نام سے جڑی علم کی لو کی مدھم نہیں ہونے دیا کرشنا نے 2013ء میں سندھ یونیورسٹی سے ۔۔
سماجیات میں ماسٹرز کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔۔
کرشنا کماری تھر کے پسماندہ لوگوں کی زندگیوں میں ۔۔
بہتری لانے کے لیے بھی عملی کوشش کرتی رہیں ۔۔
کرشنا کے خاندان میں ایک میناوتی بھی تھی۔
میناوتی انگریزوں کے خلاف لڑنے والے ۔۔
عظیم سندھی ہیرو روپلو کولھی کی بیوی تھیں ۔۔
1857ء میں جب انگریزوں نے ننگر پارکر کے راستے ۔۔
سندھ پر حملہ کیا تو مزاحمت کرنے والے ۔۔
اگلے دستوں کی کمانڈ روپلو کولھی کے ہاتھوں میں تھی۔۔ انگریز روپلو کولھی کو گرفتار کر کے ۔۔
تختہء دار پر لٹکانے کے لیے لے گئے ۔۔
تو میناوتی کی آواز تھر میں کارونجھر پہاڑ جیسے ۔۔مضبوط ارادوں کو کچھ اور جلا بخش رہی تھی۔۔
روپلا ۔۔ اگر تو نے انہیں کچھ بتایا تو ۔۔
پارکر کی کولھنیاں مجھے طعنے دیں گی ۔۔
آئے دن کوسیں گی کہ وہ دیکھو غدار کی بیوی۔۔
میں تیرا مرا ہوا منہ تو دیکھ سکتی ہوں ۔۔
اپنے آپ کو بیوہ تو قبول کر سکتی ہوں ۔۔
لیکن مجھے ایک غدار کی بیوی ہونا قبول نہیں ۔۔
اور پھر ببول کے پیڑ سے لٹکی ہوئی روپلو کی لاش ۔۔
نہ صرف اس کی بیوی میناوتی کو ۔۔
کولھنیوں کے طعنوں سے بچا گئی ۔۔
بلکہ رہتی دُنیا کو سبق بھی سکھا گئی ۔۔
پاکستان کی پہلی ہندو دلت ۔۔
کرشنا کماری کو سینیٹر منتخب ہونے پر ۔۔
وطن کے پرچم سفید رنگ پر یقین قائم ہوا ۔۔
یہ ایک مثبت قدم ہے ۔۔
کرشنا کماری پہلی بار اپنے گاوءں ننگرپارکر پہنچی ۔۔
تب مائی بھاگی کے تھر نے اس کا ۔۔
علائقائی گیتوں کے ساتھہ والہانہ استقبال کیا گیا ۔۔