تحریر: ثناء زاہد (کراچی)
کہنے کو ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے آپ کو کامیاب اور ماڈرن کہلانا پسند کرتے ہیں،ہر جگہ ترقی یافتہ ہونے کا دکھاوا کرتے نہیں تھکتے۔ لگتا ہے شاید انھوں نے تھر کا نام نہیں سن رکھا۔جی ہاں تھر! یہ پاکستان کا وہی حصہ ہے جو قحط سے پریشان ہے اور ترقی سے بہت دور ہے۔تھرپارکر صوبہ سندھ کے جنوبی حصے میں واقع ایک علاقہ ہے جس کا کل رقبہ تقریبا 7،582 مربع میل ہے۔ تھرپارکر کا زیادہ تر علاقہ صحرائے تھر پر مشتمل ہے جو پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا اٹھارواں بڑا صحرا ہے۔یہ چھاچھرو،ڈِپلو،اِسلامکو ٹ ، مِٹھی، ڈہیلی، نگرپارکر تحصیلوں پر مشتمل ہے۔
تھرپارکر کی آبادی تقریبا 1.5 ملین ہے۔ یہاں کہ مقامی لوگ زیادہ تر خانہ بدوشی کی حالت میں زندگی بسر کرتے ہیں۔زراعت اور مویشی بانی ، یہاں کے لوگوں کا بنیادی ذریعہ معاش ہے۔مقامی لوگ خوراک اور گزر بسر کے لئے مکمل طور پر اپنے مویشیوں پر انحصار کرتے ہیں. بارشیں ریگستان تھر کے لئے ایک بہت بڑی نایاب نعمت ہی۔تھرپارکر کی زمین انتہائی زرخیز مانی جاتی تھی۔فصلوں کی پیداوار کے لئے تھر والوں کو موسم گرما کی بارشوں کا انتظار ہوتا تھا،مگراب عرصہ دراز سے بارش کی شدید قلت کی وجہ سے تھرایک قحط زدہ علاقہ بن کر رہ گیا ہے۔بہت سے خاندانوں کو پانی کی تلاش میں میلوں کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔
مگر جب اب برساتی پانی نہ ہونے کی وجہ سے تھر کی زمین بنجر ہو رہی ہے تو فصلوں اور جانوروں کے چارے کو اگانے کے لئے وہاں کے مکینوں کو کوئی ترکیب نہیں سوجھ رہی اور وہ سخت پریشانی میں مبتلا ہوکر حکومتی اداروں اور پاکستانی عوام کی طرف مدد کے لئے حسرت سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ مسلہ نیا نہیں ہے بلکہ گزشتہ دس سالوں سے تھرپارکر کی زمین خشک سالی کے حالات سے دوچار ہے اور اس کی صورتحال دن بہ دن انتہائی تشویشناک ہوتی جارہی ہے۔ نئے سال کے آغاز کے ساتھ اموات تھر میں مزید اضافہ ہو رہا ہے
جو ایک خطرناک صورتحال ہے۔تھرپارکر میں اموات کی تعداد 500 سے زیادہ ہوچکی ہے ،جس میں بچے بھی شامل ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق خشک سالی کے باعث 2014 سے اب تک غذائی قلت , پیدائش کے وقت کم وزن،نمونیا ،سانس کی تکلیف اور پیٹ کی مختلف بیماریوں کی وجہ سے اب تک 300 سے زیادہ بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ اگرچہ متاثرہ تھرپارکر کے مختلف اسپتالوں میں کئی ڈاکٹرز تعینات کیے جاچکے ہیں جو اپنی انتھک کوششوں کے باوجود غذائی قلت اور مختلف بیماریوں کے سبب بچوں کی شرح اموات کو کم کرنے میں ناکام ہیں۔لاتعداد معصوم جانور جن میں مویشی، مور، خچراور بے تحاشا پرندے خوراک نہ ملنے کی وجہ سے مر رہے ہیں۔
زندگیوں کا اتنی خطرناک حد تک نقصان ہوجانے کے باوجود ارباب اختیار کو ہوش نہیں آیا کہ وہ تھرپارکر کی عوام کے مسائل ختم کرنے کے لئے جامع اقدامات کرے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کہتے تھے اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو کل قیامت کے دن عمر (رضی اللہ عنہ )سے اس بارے میں پوچھ ہو گی۔یہاں افسوس کا عالم یہ ہے کئی افراد بھوک و پیاس کے سبب مر رہے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں، تو پھر بھلا تھر میں ان لوگوں کے تڑپتے مرتے بے زبان جانوروں کو کون بچائے گا
جو ان کی روزی روٹی کا سہارا ہیں؟ اگرچہ پاک فوج، کچھ جماعتیں، غیر سرکاری تنظیمیں، فلاحی ادارے اور ہموطن پاکستانی اپنی طرف سے ہر مکمن کوشش کرکے جہاں تک رسائی ممکن ہے تھر متاثرین کے لئے میڈیکل کیمپ ، مفت علاج کی سہولت ،ادویات اور راشن پہنچارہے ہیں۔مگر یہ ا مداد ناکافی ہے کیونکہ تھر کی صورتحال مسلسل بگڑتی جارہی ہے۔حکومت کی جانب سے ناجانے کیوں اس معاملے کو اتنا سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا جتنی وقت کی اہمیت ہے۔ جو کچھ راشن او ر ادویات تھر پارکر بھیجی جارہی ہیں وہ نہ صرف ناکافی ہے بلکہ کئی جگہ تو پہنچ ہی نہیں رہیں۔
اگرچہ تھر میں کئی سو ٹن امدادی سامان بھیجا گیا تھا مگر بجائے اس کے کہ وہ سامان تھر کی عوام میں تقسیم کیا جاتا، اس میں سے بے تحاشا اشیاء کچھ لوگوں کی غفلت کے نتیجے میں میعاد ختم ہونے کی وجہ سے خراب ہوگئیں۔چاول اور گندم کی لاتعداد بوریوں میں کیڑے پڑ گئے اور وہ سڑ کر استعمال کے قابل نہ رہیں۔منرل واٹر کی کئی ہزار بوتلیں گودام میں پڑے پڑے پرانی ہوگئیں۔بہت سی جگہ فنڈز کا غلط استعمال کیا گیاجس کے سبب وہاں کے رھائشی لوگ نمائندوں سے سخت ناراض ہیں۔ تھر کو ناصرف راشن ،ادویہ اور مالی امداد کی اشد ضروت ہے
بلکہ وہاں شمسی توانائی سے چلنے والے پینے کے پانی کے پمپس لگانے کی اشد ضروت ہے کیونکہ تھر کا 80 فیصد زیر زمین پانی بیحد نمکین ہے۔اگر وہاں پمپس نصب کردیئے گئے تو بارش کا ذخیرہ پانی پینے اور کھیتی باڑی کے مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکے گا۔تھر میں مویشیوں کی دیکھ بھال کے ایسے اقدامات کئے جائیں جن سے ان میں بیماریوں اور اموات کو روکا جاسکے۔
بچوں کے لئے مناسب تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں۔اگر ہم پاکستان کے حال اور مستقبل کے بارے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو ہمیں تھر کے رہائشیوں کی ہر ممکن مدد کرنی ہوگی۔ حکمرانوں کوچاہیے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور تھر متاثرین کی بددعاؤں سے بچیں،ان کے لئے موثر اقدامات کریں۔ اس سے پہلے کے بہت دیر ہوجائے کیونکہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے ،اسکے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں، وہ معصوموں کی قربانیاں ہرگز رائیگاں نہیں جانے دیتا!
تحریر: ثناء زاہد