تحریر : خواجہ وجاہت صدیقی
ملکی حالات کا رونا پہلے ہی کیا کم تھا کہ قدرتی آفات نے دل وکلیجے ہلا کر رکھ دیے ہیں، تھر کی حالت میرے سامنے اگر ہزاروں میل دور بیٹھے بھی نمایاں ہے تو اس کا محرک پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ ہی ہے،پی ایف سی سی کے احساس جگانے والوں نے” تھر بنجر نہیںہے” کی خصوصی مہم کا آغاز کر کے مجھ جیسوں کو جذبے بخشے ہیں اور میرا من بھی اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ واقعی تھر بنجر نہیں بلکہ بنجر تو وہ ہیں جو تخت پہ بیٹھے مستقبل کی ڈور کھنچتے ہیں، بنجر تو وہ ہیں جن کی شاہانہ سوچ نے اس ملک و ملت کے گلے میں کشکول کی ڈوری ڈالی،وہ سوچ بنجر ٹھہری ہے جو پرسکون، ٹھنڈے اور بند کمروں میں انواع و اقسام کی پرتکلف ڈشز رگڑ تے اور پیٹ کا دوزخ بھر کر تھرپارکر کے بے بسوںاور اسی طرح کے غریب و لاچار لوگوںکی ہڈیوں کی جمع تفریق کرتے ہیں۔
بلوچستان سے لاتعلقی کا رونا ہی کیا کم ہے کہ اب تھرپارکر بھی اقلیتی علاقوں جیسا ہو رہا ہے دن رات جمہوریت زندہ باد کی کھوکھلی صدائوں کے سامنے اپنے مستقبل کو تابناک بنانے والوں نے اس جمہوری فلاحی اسلامی ریاست کے بدقسمتوں کو نوچ نوچ کھا لیا مگر کسی بھی ایرے غیرے کو دل وجان سے اس ملک و ملت کی خدمت کی توفیق نصیب نہ ہو سکی، تھرپارکر کے بارے میں ،میں جو معلومات رکھتا ہوں اس بارے میں یہ کہا جائے تو بے جا نہیں کیونکہ مسلسل استحصال اور عدم توجہی کے ناسور نے ان لوگوں کو بھی ہم سے بیگانہ بنا دیا۔
حکمرانوں کی شاہانہ سوچ اور اقتدار کی باریوں نے قوم کو کیا دیا یہ جاننا اور پرکھنا ضروری نہیں کیونکہ قوم کی حالت اور ملک کے بحران ہمیں صاف بتا رہے ہیں کہ اقتدار کی مسند پر سواری کرنے والوں کی سوچ کیا ہے؟ ملک عزیزپاکستان کی اسی طرح کی موجودہ حالت کسی بھی وقتی فائد ے کے لیے بے پناہ خطرات کو دعوت دینے کی ابدی صلاحیت سے دوچار ہے،دہشت گردی کی اصل وجوہات جاننے والے مفکروں کے دماغ و سوچ کے کسی کونے میں نہ جانے یہ بات کیوں نہیں چبھتی کہ اپنی نالائقیوں اور بے پرواہیوں کے سبب جو سلوک وہ تھرپارکر کے مکینوں سے روا رکھ رہے ہیں یا اسی طرح کی اپنی ہٹ دھرمی،غفلت اور عدم توجہی کو استحصال کی صورت پھیلا رہے ہیں۔
دراصل وہ دہشت گردوں ہی کی کھیپ کے بیج بو رہے ہیں،کیونکہ موت کو قریب اور سسک کر مرنے والوں کی رگوں میں جب زندگی کا خون دوڑنے لگتا ہے تو وہ انتقام کی بھٹی میں تب تک جھلس چکے ہوتے ہیں اور پھر من کا آتش فشاں کسی طرح تو پھٹنے کے قریب ہوتا ہے،کہا جا رہا ہے کہ حکومت بحرانوں کی لپیٹ اور قوم حالت جنگ میں ہے،وزیرستان اور دیگر قبائل سے بگاڑ سے حالات دگرگوں ہیں، عام طور پر ہم فوجی حکمرانوں کو موردِ الزام ٹھہراتے رہتے ہیں کہ اُنھوں نے پرائی جنگوں میں کودتے ہوئے پاکستان کے مفاد کا خیال نہیں رکھا،حالانکہ ایسا ہر گز نہیں،کیونکہ جمہوریت کی چنگاریاں سلگانے والوں کے سامنے جب بھی آگ کا الائو بھڑکتا ہے اورآسمان کو چھونے والے شعلے جب بے قابو ہو جائیں تو تب اسی پاک فوج ہی کی یاد ستاتی ہے، میں تو یہی عرض کروں گا کہ اگر خلیفہ دوئم حضرت عمرفارق کو دریائے فرات کے کنارے مرنے والے کتے کی فکر لاحق ہوتی ہے تو تھرپارکر میں روزانہ مرجھانے والی کلیوں کی موت کا الزام کس کو دیا جائے۔
کہاں ہیں وہ انسانیت کے پارساجو دعوے زیادہ اور عمل کم کرتے ہیں،کہاں ہیں وہ انسانی حقوق کے بھرم باز جو اخبارات میں فوٹو سجانے کے نشے میں چور چور رہتے ہیں اور کہاں ہیں وہ خدمت خلق کی تقاریر جھاڑ کر ووٹوں کی بھیک مانگنے والے جن کو تھرپارکر کے منظر دکھائی نہیں دے رہے،قدرتی آفت سے بھلے وہاں کے باسی دوچار سہی مگر حکومت نام کی شے وہاں کیوں نہیں دکھائی دے رہی،میں تھرپارکر کے بارے میں ابھی اتنا کچھ ہی جانتا ہوں اور مجھے یہی علم ہے اور میری سوچ اس بات پر ایمان رکھتی ہے۔
جب ضمیر جاگ جاتا ہے تو کوئی مشکل راستے کی رکاوٹ نہیں ہوتی مگر میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ جب اپنوں کی فکر ختم ہو جائے اور احساس مر جائے تو پھرہمیں کرہِ ارض پر کسی بھی دوسرے حریف کی ہر گز ضرورت نہیںرہتی،حالات کے بھنور میں ہچکولے کھانے والی تو قوم ہی ہے ،مگر ضمیر کی سوداگریاں کرنے والے نہ جانے رب کے قہر اور مکافات عمل سے ہر بار کیوں بچ جاتے ہیں؟؟شایدیہی سچ ہے کہ حریص اقتدار والوں کے حصوں میں منافقت ہی ہے اور وہ ہر بار پینترا بدل کر ہمارے کاندھوں کو بطور سیڑھی استعمال کر جاتے ہیں اور ہم وہی کے وہی اپنے آپ کو ہی کوستے رہ جاتے ہیں۔
تحریر : خواجہ وجاہت صدیقی