لاہور(ویب ڈیسک ) قائداعظم سفرِ ریل کے دوران اپنے لیے دو برتھیں مخصوص کرایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی نے ان سے وجہ دریافت کی تو جواب میں انھوں نے یہ واقعہ سنایا ’’میں پہلے ایک ہی برتھ مخصوص کراتا تھا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے، میں لکھنٔو سے بمبئی جا رہا تھا۔ کسی چھوٹے سے اسٹیشن پر ریل رکی تو ایک اینگلو انڈین لڑکی میرے ڈبےمیں آکر دوسری برتھ پر بیٹھ گئی۔ چونکہ میں نے ایک ہی برتھ مخصوص کرائی تھی، اس لیے خاموش رہا۔ ریل نے رفتار پکڑی تو اچانک وہ لڑکی بولی ’’تمھارے پاس جو کچھہےفوراً میرے حوالے کردو، ورنہ میں ابھی زنجیر کھینچ کر لوگوں سے کہوں گی کہ یہ شخص میرے ساتھ زبردستی کرنا چاہتا ہے۔‘‘ میں نے کاغذات سے سر ہی نہیںاٹھایا۔ اُس نے پھر اپنی بات دہرائی۔ میں پھر خاموش رہا۔ آخر تنگ آ کر اُس نے مجھے جھنجھوڑا تو میں نے سر اٹھایا اور اشارے سے کہا ’’میں بہرہ ہوں، مجھے کچھ سنائی نہیں دیتا۔ جو کچھ کہنا ہے، لکھ کر دو۔‘‘اُس نے اپنا مدعا کاغذ پر لکھ کر میرے حوالے کر دیا۔ میں نے فوراً زنجیر کھینچ دی اور اسے مع تحریر ریلوے حکام کے حوالے کردیا۔اس دن کے بعد سے میں ہمیشہ دو برتھیں مخصوص کراتا ہوں۔مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی کتاب ’میرا بھائی‘ میں لکھا ہے کہ جب قائداعظم محمد علی جناح لندن میں تعلیم کی غرض سے گئے تو وہ مسز ایف ای اپیج ڈریک کے گھر میں کرائے پر رہنے لگے ۔ مسز بیچ ڈرک ایک مہربان بوڑھی خاتون تھی جس کا کنبہ کافی بڑا تھا۔ وہ خاص طور پر ان سے بڑی محبت کرتی تھی اور انہیں اپنے بیٹے ہی کی طرح سمجھتی تھی۔ مسز ڈریک کی ایک انتہائی حسین و جمیل بیٹی تھی ، جو قائد کی ہم عمر تھی۔وہ کہتی ہیں کہ خوبرو مس ڈریک میرے بھائی میں بہت دلچسپی رکھتی تھی مگر وہ اس طرح کے انسان نہیں تھے جو اس قسم کے معاشقوں وغیرہ میں خود کو ملوث کرتے جبکہ مس ڈریک میرے بھائی پر خصوصی توجہ دیتی تھی۔ ہر وقت ان کا دل جیتنے کی کوشش میں لگی رہتی تھی۔مگر وہ ہمیشہ اس کے ساتھ قابل احترام حد تک فاصلہ رکھتے تھے۔ مس ڈریک کبھی کبھی اپنے گھر میں مخلوط پارٹیاں بھی منعقد کرتی تھی اور ان میں دوسرے کھیلوں کے ساتھ ساتھ وہ اپنے مہمانوں کے لئے مغربی انداز کے اس خصوصی کھیل کا بھی اہتمام کرتی تھی جس میں کسی خاص جگہ پر چھپنے والے کے پکڑے جانے کی صورت میں جرمانہ کے طور پر بوسہ لینا پرتا تھا۔ مس ڈریک کی مسلسل کوششوں کے باوجود قائد بوسہ بازی کے اس کھیل میں کبھی شامل نہ ہوئے۔قائد نے مجھے بتایا ’’کرسمس کا موقع تھا اور ڈریک خاندان اسے روایتی جوش و خروش سے منارہا تھاجیسا کہ عیسائی خاندانوں میں رواج ہے۔ آکاس بیلیس گھروں کے دروازوں پر لٹک رہی تھیں۔ جن کے نیچے ان لوگوں کو ایک دوسرے کا بوسہ لینے کی اجازت ہے۔ میں اس رسم سے باخبر نہیں تھا اور اتفاق سے ایک آکاس بیل کے نیچے کھڑا تھا کہ مس ڈریک نے مجھے پکڑکرگلے لگالیا اور مجھ سے کہا کہ میں اس کا بوسہ لوں۔ میں نے اسے ڈانٹا اور کہا کہ ہمارے معاشرے میں نہ تو ایسا کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کی اجازت ہے۔ مجھے خوشی تھی کہ میں اس کے ساتھ اس انداز میں پیش آیا تھا، کیونکہ اس روز کے بعد مجھے اس کی نخرے بازی کی الجھن سے نجات مل گئی۔‘