وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہےکہ عدالت کے باہر جو ہوا وہ اوپر سے آیا ہوا کوئی حکم نہیں بلکہ بد انتظامی ہے لیکن یہ سب نگراں جج کی ناک کے نیچے سب کچھ ہورہا ہے اس لیے وہ اس کا نوٹس لیں۔
خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ انہوں نے اندر جانے کی کوشش ہی نہیں کی لیکن جب وزیر داخلہ آئے تو انہیں اندر جانے دینا چاہیے تھا، یہ اوپن کورٹ ہے یہاں درجنوں وکلا باہر کھڑے ہیں، جب وکلا عدالت میں نہیں جائیں گے تو پھر کون جائے گا؟ کیا کبھی وکلا کے بھی عدالت میں جانے پر پابندی ہوتی ہے۔ صحافی باہر کھڑے ہیں اور اندر عدالت چل رہی ہے، احسن اقبال کی ناراضی بجا ہے۔
ن لیگی رہنما نے کہا کہ ملک کا سارا میڈیا یہاں موجود ہے، اگر میڈیا یہ کارروائی نہیں دیکھ سکتا تو یہ اوپن کورٹ نہیں، یہ احتساب عدالت کے معزز جج اور مانیٹرنگ جج سوچیں یہ کس قسم کا انصاف دے رہے ہیں، یہ ان کی ناک کے نیچے ہورہا ہے انہیں اس کا نوٹس لینا چاہیے اور مجھے لگتا ہے وہ اس کا نوٹس لیں گے۔ وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ یہ سلوک ہوتا رہا ہے، ہم گرتے ہیں کھڑے ہوجاتے ہیں اور پھر ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اسے کسی اوپر سے آیا ہوا حکم نہیں سمجھتا، عدالت کے باہر جو ہوا وہ مقامی افسر کی غلطی ہے۔ وزیر ریلوے نے کہا کہ عدالت میں داخلے کےلیے لوگوں کی منظور شدہ فہرست دی گئی تھی لیکن یہ سب کچھ کرکے میسج دیا جارہا ہےکہ انصاف نہیں ہورہا، انصاف بنیادی حق ہے ہوتا ہے جو نظر آنا چاہیے، عدالت عظمیٰ میں انصاف ہوتا نظر نہیں آیا اور جے آئی ٹی میں ظلم کی انتہا کی گئی۔ ایک سوال کے جواب میں سعد رفیق نے کہا کہ استعفیٰ دے کر باہر نکل جانا بہت آسان کام ہے اور یہ کچھ طبقوں کی خواہش ہے لیکن ہمیں اس صورتحال کو ٹھنڈا رکھنا ہے۔