counter easy hit

ایک مزدورکا وہ بیٹا محنت مزدوری سے پاکستان کی قومی ہاکی ٹیم تک پہنچ گیا۔۔۔۔ایک شاندار رپورٹ

That son of a laborer reached Pakistan's national hockey team with hard work - a fantastic report

لاہور(ویب ڈیسک) مزدورکا بیٹا محنت مزدوری سے ٹوکیواولمپک کوالیفائنگ راﺅنڈ کے قومی کیمپ تک پہنچ گیا۔تفصیلات کے مطابق ٹوکیو اولمپک کوالیفائنگ راونڈ کی تیاریوں کے لئے پاکستان ٹیم کا کیمپ نیشنل اسٹیڈیم لاہورمیں جاری ہے جس میں 6 فٹ 3 انچ قد کا حامل سرگردھا کا محمد سمین بھی شام ہے جو اپنی انتھک محنت کے بل بوتے پر قومی کیمپ کا حصہ بننے میں کامیاب رہا ہے۔ دو مرلے کے گھر میں رہنے والا سرگودھا کے محمد سمین کا والد مزدور ہے، خود بھی محنت مزدوری کر کے ہاکی کے شوق کو پروان چڑھاتا رہا،اس دوران طرح طرح کی مشکلات بھی پیش آئیں،لیکن سمین نے ہمت نہ ہاری۔اس حوالے سے محمد سمین کا کہنا ہے کہ میرے والد محنت مزدوری کے ساتھ خود بھی ہاکی کھیلتے رہے لیکن وہ بعض وجوہات کی بنیاد پر آگے نہ سکے لیکن ان کی خواہش تھی کہ پاکستان کے لئے کھیلنے کا خواب میرا بیٹا پورا کرے۔میڈیا سے بات کرتے ہوۓ محمد سمین کا کہنا تھا کہ میرے والد گزشتہ 8 سال سے مجھے روزانہ 30 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے گرائونڈ تک لے جاتے رہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ میرے والد کے صبر اور میری انتھک محنت کا پھل ہے کہ میں قومی کیمپ تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہوں، یہ میری منزل نہیں بلکہ میرا اصل ہدف مستقل بنیادوں پر قومی ٹیم کا حصہ بن کر دنیا بھر میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرانا ہے، یہ ٹارگٹ مشکل ضرور ہے لیکن مجھے خود پر پورا بھروسہ ہے، پر امید ہوں کہ ایک دن اپنی اصل منزل حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاؤں گا۔یہ سچ ہے کہ ہاکی غربیوں کا کھیل ہے، ماضی میں کسی دور دراز اور پسماندہ علاقے میں کسی غریب کے بچے کو ہاکی کھیلنے کی بنیاد پر سرکاری محکمے میں نوکری ملتی تھی تو آس پاس کے علاقوں میں دھوم مچ جاتی اور دوسرے بچوں میں بھی ہاکی پلیئر بننے کے لیے نیا جوش وخروش پیدا ہوتا تھا۔ ماضی میں منیر ڈار، توقیر ڈار، خالد محمود،اختر رسول، رانا مجاہد علی، اصلاح الدین صدیقی، طاہر زمان، خواجہ جنید، شہباز سینئر، شہناز شیخ، منظور الحسن، منظور جونیئر، شاہد علی خان، دانش کلیم سمیت نہ جانے کتنے کھلاڑی ہیں جنہوں نے نہ صرف غربت سے امارت کا سفر طے کیا بلکہ اپنے کھیل سے پاکستان کو عالمی سطح پر ان گنت فتوحات بھی دلائیں۔ماضی میں قومی کھیل کے عروج کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ ہاکی حکومت کی آنکھوں کا تارا تھی، عالمی ایونٹ سے قبل سربراہ مملکت کی جانب سے کھلاڑیوں کے اعزاز میں پروقار تقریب کا اہتمام کیا جاتا، بعد ازاں نیک تمناؤں کے ساتھ ٹیم کو رخصت کیا جاتا جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ ٹیم عالمی مقابلوں میں بھر پور اعتماد کے ساتھ میدان میں اترتی اور حریف ٹیموں کے چھکے چھڑاتے ہوئے ٹائٹل اپنے نام کرکے وطن واپس لوٹتی لیکن اب حکومت کی ترجیحات تک تبدیل ہو چکی ہیں اور حکمرانوں نے سپورٹس بالخصوص قومی کھیل کو یکسر نظر اندازکرتے ہوئے ایک کونے میں پھینک رکھا ہے۔ماضی میں باصلاحیت پلیئرزکی تعداد اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ قومی ٹیم میں جگہ بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا تھا، بڑی تعداد میں کھلاڑیوں کے ہونے کی سب سے بڑی وجہ انہیں سرکاری محکموں میں نوکریوں کا ملنا تھا ،اچھے پلیئرزکو کسٹمز، پولیس، بینک اور پی آئی اے سمیت متعدد سرکاری محکموں میں آسانی سے ملازمتیں مل جایا کرتی تھیں، صرف پولیس کے محکمہ میں ہی ہاکی کے 8 پلیئرز سمیت دوسرے کھیلوں سے وابستہ متعدد کھلاڑی ایسے تھے جو ایس پی کے عہدوں پر فائز رہے۔پی آئی اے میں شہباز احمد سینئر سمیت ملازمتیں حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے، پرکشش نوکریاں ملنے پر پلیئرز اپنے کھیل کی طرف بھر پور توجہ دیتے اور ملکی و بین الاقوامی ٹورنامنٹس میں شاندارکارکردگی دکھا کر ملک و قوم کی نیک نامی کا باعث بنتے۔کہتے ہیں جب نیتوں میں کھوٹ ہو تو نتائج بھی ویسے ہی ہوتے ہیں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website