گزشتہ حکومت نے جاتے جاتے عجلت میں دو کام کئے تھے ۔ایک ایسا بجٹ پیش کیا جس کے لئے وزیر خزانہ کو حلف دلوایا گیا۔ دوسرا اسی ایڈہاک وزیر خزانہ مفتاح اسمعیل نے ایمنسٹی اسکیم پیش کی جس کی موجودہ حکومت اور اس وقت کی اپوزیشن نے بھرپور مخالفت کی۔ اصل بات یہ ہے کہ اس ایمنسٹی اسکیم کے اعلان سے قبل آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ منظر عام پہ آئی تھی جس میں پاکستان کی معاشی صورتحال خاصی مخدوش نظر آرہی تھی۔ اس مالی سال میں کرنٹ اکاونٹ خسارہ پندرہ ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا تھا۔
سرکاری اداروں کے خسارے بارہ ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے تھے۔ اس غربت کی وجہ وہی اللے تللے، کمزور معاشی اور تجارتی پالیسیاں،بدعنوانی، بلند قرضے ، درامدات کی قدر میں اضافہ اور برآمدات میں کمی تھی۔ تبھی آئی ایم ایف نے روپے کی قدر میں کمی کی تجویز دی تاکہ ڈالر کے مقابلے میں عالمی مارکیٹ میں روپے کی حقیقی قدر معلوم ہوسکے۔وہ بھی کردی گئی۔اس باربھی جب بعد از خرابی بسیار حکومت آئی ایم ایف کے پاس گئی تو طرفین کے مذاکرات میں بڑا ڈیڈلاک ایمنسٹی اسکیم کے باعث آیا۔وہ نہیں جو گزشتہ حکومت نے متعارف کروائی تھی جس کی رو سے کالا دھن محض دو فیصد میں سفید کیا جا سکتا تھا بلکہ اس حکومت کی ایمنسٹی اسکیم جو درحقیقت بے نامی کھاتوں کے اعتراف اور اثاثوں کی ڈیکلریشن کا آرڈیننس ہے اور اسی باعث گزشتہ اسکیم سے مختلف بھی ہے۔اس ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے متعلق دو باتیں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا مقصد ریونیو اکٹھا کرنا نہیں بلکہ معیشت کو دستاویزی شکل دینا ہے۔اسکا مطلب ہے کہ فی الوقت اس اسکیم کی کامیابی کی صورت میں صرف وہ ریوینیو اکھٹا ہوسکے گا جو بونس ہوگا کیونکہ اصل مقصد تو معیشت کو دستاویزی بنانا ہے۔ یہ پہیہ چل پڑا تو آگے ریوینیو کی امید کی جاسکتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ اس اسکیم سے وہ پاکستانی فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے جو 2000ء کے بعد کسی بھی عوامی عہدے پہ فائز رہے ہوں۔ حکومت کی طرف سے فراہم کی گئی ایسٹ ڈیکلریشن آرڈیننس کی تفصیلات میں عوامی عہدہ رکھنے والے افراد کی تعریف بھی کی گئی ہے۔ میں نے اپنے ایک کالم میں یہی سوال اٹھایا تھا کہ پلی بارگین یا کسی بھی قسم کی استثنائی سہولت سے صرف ٹیکس چور مستفید ہوکر کالا دھن سفید کرسکیں گے یا قومی خزانے میں لوٹ مار اور غبن کرنے والے بھی یکساں مستفید ہونگے۔ اس آرڈیننس نے یہ واضح کردیا ہے کہ عوامی عہدے پہ فائز کوئی شخص اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔اب وہ لوگ جو ماضی میں صدارت و وزارت کے منصب پہ فائز رہ چکے ہیں اور ان کے بے نامی اکاونٹس کی ایک لمبی فہرست منظر عام پہ آچکی ہے اور فالودے والوں رکشے والوں حتی کہ نشہ کرنے والوں کے نام بھی اکاوئٹس کھل رہے ہیں ان کا مسقتبل کیا ہوگا؟ کیا وہ نیب کی پیشیاں بھگتتے رہیں گے ؟۔ ساتھ ہی وہ جائیدادیں جو بیرون ملک بنائی گئی ہیں اور خاندان میں ہی گھومتی رہیں یعنی بیٹے بیٹی داماد سمدھی وغیرہ کے نام پہ بلکہ ڈرائیوروں اور چپڑاسیوں کے نام پہ بھی بنالی گئیں ان کا کیا ہوگا۔ بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسے ہر شخص یعنی کھل کر کہیں تو زرداری بلاول فریال تالپور یا دوسری طرف شہباز شریف اینڈ کمپنی کو ایسا کوئی موقع نہیں دیا جارہا جسے این آر او کا نام دیا جاسکے۔ ایک بات اور ذہن میں رکھنی ہوگی کہ بے نامی اکاوئنٹس کا قانون دو سال سے بنا ہوا ہے لیکن اسے نافذ کرنے کی ہمت اسی حکومت کو ہوئی۔ گزشتہ ایک سال سے نیب ایف آئی اے اور دیگر تفتیشی ادارے نہایت عرق ریزی سے ایسے بے نامی اکاونٹس اور جائیدادوں کی تمام تفصیلات اکٹھی کر چکے ہیں۔ مسئلہ اس وقت بنتا ہے جب نیب عدالت میں ریفرینس دائر کرتی ہے اور ملزمان ہر بار ضمانت لے کر مسکراتے ہوئے باہر آجاتے ہیں یا کیس تو میگا کرپشن اور پاناما کا بنتا ہے لیکن سزا اقامہ پہ ہوتی ہے۔ایسے میں نیب اور ایف آئی اے کی تمام پھرتیاں دھری رہ جاتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو وہ نظا م انصاف ہے جس میں کمزور پھنس جاتا اور طاقتور وکٹری کا نشان بناتا ہوا نکل آتا ہے دوسرا نیب کی پراسیکیوشن جو فریق ثانی کی نسبت کمزور ہوتی ہے۔ یعنی تفتیش تو اعلی درجے کی ہوتی ہے لیکن استغاثہ کا حال سب کے سامنے ہے۔ ظاہر ہے فریق ثانی کے پاس وکیل صفائی کو دینے کے لئے کالے دھن کے ڈھیر موجود ہیں جبکہ حکومت کے وکیل کا حال سب کو معلوم ہے۔اسی حکومت کو اپنی صفائی کی مد میں عالمی عدالتوں اور ثالثی کی مد میں سو ملین ڈالر دس سال میں ادا کرنے پڑے ہیں جبکہ دس ملین ڈالر ابھی ادا کرنے ہیں۔ایک جملہ معترضہ کے طور پہ عالمی عدالتوں میں جن ناہنجاروں کی وجہ سے حکومت پاکستان کو بھاری ہرجانہ دینا پڑ رہا ہے جن میں سینڈیک وغیرہ شامل ہیں ، کیو ں نہ یہ رقم ان ہی کی جیب سے نکلوائی جائے؟
ایک اور کیس نیویارک میں حبیب بینک پہ بھاری ہرجانے کا ہے جو نوازشریف کی وجہ سے بھرنا پڑا اور بینک کی نیویارک برانچ ہی بند ہوگئی۔پتا نہیں کیوں اس کیس پہ توجہ نہیں دی جارہی۔ ایسے بہت سے کیس آپ کو ان ہی لوگوں کی وجہ سے ملیں گے جو آج اس ایمینسٹی اسکیم پہ شور مچا رہے ہیں۔ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جب ایف آئی اے کے پاس تمام تفصیلات پہلے سے موجود ہیں تو مطلوبہ افراد پہ ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جارہا اور انہیں ایک اور سنہری موقع کیوں دیا جارہا ہے جبکہ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان کا نظام انصاف انہیں ریلیف ہی دے گا یعنی اس صورت میں اگر انہوں نے اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو عوامی عہدہ رکھنے والوں کو یہ موقع دیا ہی نہیں جارہا یعنی ان پہ کیس چلتے رہیں گے۔نیب ریفرینس بناتی رہے گی ۔کیس عدالت میں جائے گا۔ سزا ہوگی ۔سزا معطل ہوگی۔ ضمانت ہوگی۔ ضمانت میں توسیع ہوتی رہے گی توکسی کا کیا جائے گا سوائے اس کے کے آپ کا وکیل آپ کی جائیداد حکومت سے بچا کر خود رکھ لے گا لیکن وہ اتنی بڑی اور اتنی ساری ہیں کہ کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ دوسری طرف وہ صنعت کار اور تاجر جو حکومت کی دی ہوئی سبسڈی ، یعنی میرے اور آپ کے ٹیکس سے دی گئی بجلی اور گیس کی چھوٹ پہ اپنی صنعتیں چلاتے اور ٹیکس چھپاتے رہے،نیب اور ایف بی آر کے ریڈار پہ ہیں۔اگر وہ چار فیصد ٹیکس ادا کرکے اپنا کالا دھن سفید نہیں کرتے اورجائیدادیں بیرون ملک ہی رکھنے کی صورت میں مزید دو فیصد ادا کرکے اس اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھاتے تو وہ اثاثوں کی ضبطی کے لئے تیار رہیں۔مزے میں تو وہ رہے جنہوں نے عوامی عہدہ بھی رکھا،بے نامی اکاونٹس کے مزے بھی لوٹے ،بیرون ملک جائیدادیں بھی بنائیں،آف شور کمپنیا ں کھولیں اور پاکستان کے نظام انصاف میں بھی یہی سرخرو ہونگے۔