اڑیسہ میں سمندر کے کنارے واقع ’ما پنچو براہی‘ نامی مندر بھارت کے باقی مندروں سےکافی مختلف ہے، اس مندر کی روایت کے مطابق ادھر مردوں کا نہ صرف جانا منع ہے بلکہ انہیں مندر میں موجود پانچ بتوں کو چھونے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
یہ مندر صرف وہیں کی مقامی ماہی گیر کمیونٹی کی خواتین کے لیے بنایا گیا ہے۔ لیکن ان خواتین کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ ’دلت‘ برادری سے تعلق رکھتی ہوں اوران کا شادی شدہ ہونا لازمی ہے اور تب ہی وہ اس مندر میں اپنی مذہبی رسومات ادا کرسکتی ہیں اور اپنے دیوتاوں کی پوجا کرسکتی ہیں۔
اب 400 سال گزر جانے کے بعد اس مندر نے اپنی روایت کو توڑ دیا ہے وہ اس طرح کہ چار سو سالوں میں پہلی مرتبہ مردوں کو اس مندر میں موجود پانچ بتوں کو چھونے کی اجازت ملی ہے۔ لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیا ہوگیا جس نے اس مندر کو اپنی برسوں پرانی روایت توڑنے پر مجبور کردیا؟
روایت توڑ دینے کی وجہ:
سمندر کے کنارے بنے اس مندر کی برسوں پرانی روایت ٹوٹنے کی وجہ ’گلوبل وارمنگ‘ سے سمندر میں موجود پانی کی سطح کا بڑھنا ہے۔ اس سمندرمیں پانی کا لیول اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ پانی اب مندر کے اندر تک آنے لگا ہے جس کے سبب وہاں عورتوں کو دیگر مذہبی رسومات ادا کرنے میں جہاں پریشانی کا سامنا ہے وہیں مندر میں موجود پانچ بتوں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس مندر میں موجود بت اتنے زیادہ وزنی ہیں کہ ان کو اٹھانا عورتوں کے بس میں نہیں جس کے لیے مردوں کی مدد ہر صورت لانا پڑتی اور یہی وجہ بنا ہے مردوں کے مندر میں پہلی مرتبہ قدم رکھنے کا۔
وہاں موجود پادری خواتین نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ پانچ مردوں کو مندر میں داخل ہونے کی اجارت دی گئی تاکہ وہ بتوں کو اس جگہ سے12 کلو میٹر فاصلے پر ایک جزیرے پر اسے منتقل کر سکیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہاں کے لوگوں کا مننا ہے کہ یہ ما پنچو براہی مندر انہیں ہر طرح کی قدرتی آفات سے محفوظ رکھتا ہے۔
اڈیشہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے اس صورتحال کومدد نظر رکھتے ہوئے اس بات کافیصلہ کیا ہے کہ سمندر کے کنارے موجود تمام برباد ہونے والے گائوں کے رہائشیوں کو بڑی مشکل سے دوچار ہونے سے بچانے کے لیے انہیں دوسری جگہ منتقل کیا جائے گا اور انہیں اتنی رقم بھی فراہم کی جائےگی جس سے وہ ایک مرتبہ پھر اپنا گھر بنا سکیں۔