لاہور (ویب ڈیسک) جج ارشد ملک کی ایسی ہی شخصیت میرے ذہن میں تھی اور سوچ رہا تھا کہ جج صاحب پریس ریلیز میں کیا لکھیں گے۔ اسی اثنا میں جج صاحب کا پرائیویٹ سکریٹری ہاتھ میں پریس ریلیز تھامے عدالتی احاطے میں نمودار ہوا۔ مجھ سمیت تمام صحافی اس کی طرف لپکے اور فون کان پر نامور صحافی اعزاز سید ڈوئچے ویلے کے لیے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ لگا کر اپنے اپنے اداروں میں معزز جج کی پریس ریلیز رپورٹ کرنے لگے۔ جج ارشد ملک کی طرف سے پریس ریلیز پڑھ کر میں حیران رہ گیا۔ احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بار بار پریس ریلیز کا مطالعہ کیا۔ اس پریس ریلیز کا متن پڑھ کر میری سمجھ میں جو چند باتیں آئیں پہلے وہ بالترتیب آپ کے پیش نظر کرتا ہوں۔ 1۔ جج ارشد ملک نے مریم نواز کی پریس کانفرنس کو اپنے، اپنے خاندان اور ادارے کے خلاف ایک سازش قرار دیا۔ 2۔ جج ارشد ملک نے مسلم لیگ ن کے کارکن ناصر بٹ، جنہوں نے یہ ویڈیو بنائی یا بنوائی تھی، سے اپنے دیرینہ تعلق کا ذکر کیا۔ انہوں نے ناصر بٹ اور ان کے بھائی عبداللہ بٹ کے بارے میں یہ اعتراف بھی کیا کہ وہ ان سے بے شمار مرتبہ مل چکے ہیں۔ 3۔ پریس ریلیز میں جج ارشد ملک نے کہا کہ ویڈیو حقائق کے برعکس ہے اور مختلف مواقع پر کی جانے والی گفتگو کو توڑ مروڑ کر سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔ 4۔ معزز جج کی طرف سے یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ نوازشریف اور ان کے خاندان کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران ان کے نمائندے انہیں بارہا رشوت کی پیش کش کرتے رہے۔ 5۔ معزز جج نے بتایا کہ کیس کی سماعت کے دوران انہیں عدم تعاون کی صورت سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ 6۔ جج صاحب نے کہا کہ انہوں نے لالچ یا دباو کی بجائے صرف شواہد اور حقائق کی بنیاد پر سابق وزیراعظم کو العزیزیہ کیس میں سزا سنائی اور فلیگ شپ کیس میں بری کر دیا۔ 7۔ معزز جج نے ویڈیو کو جعلی، جھوٹ پر مبنی اور مفروضہ قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ اس میں ملوث افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے۔اگر آپ یہ مان لیں کہ مسلم لیگ ن کی طرف سے کی گئی پریس کانفرنس اور اس میں دکھائی گئی ویڈیو سراسر جھوٹ کا پلندہ ہے تو خود جج ارشد ملک کی طرف سے جاری پریس ریلیز بعض سنگین نوعیت کے سوالات پیدا کرتی ہے۔1۔ اگر یہ ویڈیو جعلی ہے تو معزز جج نے اب تک اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کیوں نہ کی؟ یا اس میں اتنی تاخیر کی وجہ کیا ہے؟2۔ اگر نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران انہیں رشوت کی پیش کش کی گئی تو معزز جج نے ایسی پیش کشں کرنے والےکے خلاف کیا قانونی کارروآئی کی؟ کیونکہ رشوت کی پیش کش کرنا ازخود ایک جرم ہے۔3۔ کیا معزز جج نے رشوت کی پیش کش کے بارے میں سپریم کورٹ کے نگران جج یا اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جن کے وہ براہ راست ماتحت ہیں، کو اس بارے میں کوئی خبر دی؟4۔ معزز جج نے کہا کہ کیس کی سماعت کے دوران نواز شریف اور ان کے خاندان کے نمائندے انہیں بارہا یہ پیش کش کرتے رہے یعنی معزز جج نے اعتراف کیا کہ وہ اس حساس کیس کی سماعت کے دوران شریف خاندان کے نمائندوں سے مسلسل رابطے میں تھے اور ظاہر ہے اس کیس کے حوالے سے بات بھی کرتے تھے۔ کیا کسی کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران اس شخص کے نمائندوں سے ملاقاتیں کرنا انصاف کے بنیادی اخلاقی تقاضوں سے متصادم نہیں؟5۔ نواز شریف اور ان کے خاندان کے، جو نمائندے انہیں رشوت کی پیش کش کرتے رہے، ان کے نام کیا ہیں؟ کیا ان کے خلاف جج صاحب نے پولیس یا کسی اور فورم پر کوئی شکایت کی؟6۔ کیا معزز جج نے نوازشریف اور ان کے خاندان کے نمائندوں کی طرف سے سنگین نتائج کی دھمکیوں اور خطرات کے بارے میں عدلیہ یا پولیس میں سے کسی کو مطلع کیا؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اگر ہاں تو اس کا نتیجہ کیا نکلا؟7۔ کیا معزز جج بتانا پسند کریں گے کہ وہ ناصر بٹ سے اپنے گھر کیوں ملے؟ اور ان کو اپنے ہی فیصلے کو چیلنج کرنے مین مبینہ معاونت کیوں فراہم کی؟8۔ لیگی رہنماؤں کا دعوی ہے کہ جاری کی گئی ویڈیو ایڈیٹ نہیں کی گئی۔ معزز جج جس ویڈیو کو جعلی قرار دے رہے ہیں کیا وہ اس ویڈیو کا کسی غیر جانبدارانہ فرم سے فرانزک جائزہ کروانے پر تیار ہیں؟میں ذاتی طور پر معزز جج جناب ارشد ملک کو بہت پسند کرتا ہوں۔ ان کی عدالت میں جب بھی حاضری ہوتی ہے کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ مجھے ان کا براہ راست موقف سننے کا بھی اشتیاق ہے۔ شاید وہ کبھی آن دی ریکارڈ آنا پسند نہ کریں مگر انہیں چاہیے کہ وہ اس تنازعے میں مندرجہ بالا سوالوں کا جواب ضرور دیں۔ ان سے ملنے والے ضرور ان کی تعریفوں کے پل باندھتے اور انہیں تسلیوں کے محل میں بٹھاتے ہوں گے۔ مگر وہ یقیناﹰ گوشت پوست کے بنے سوچنے والے پڑھے لکھے انسان ہیں۔ وہ یقینی طور پر معاشرتی، خاندانی اور پیشہ وارانہ لحاظ سے ذہنی کوفت کا شکار ہوں گے۔ ان سب مسائل کا حل صرف اور صرف سچ ہے۔ اصل سچ کیا ہے؟ ایک سچا اور کھرا منصف ہی بتا سکتا ہے۔