صوبائی محکمہ صحت نے شہر میں گرمی کی شدت میں اضافے کے باوجود نیگلیریا سے بچاؤ کےلئے تاحال خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جس کے باعث یہ مرض پھیل سکتا ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق نیگلیریا فوولری کو ’برین ایٹنگ امیبا‘ (دماغ کھاجانے والا جرثومہ ) بھی کہا جاتا ہے، جو پانی میں پرورش پاتا ہے اور ناک کے ذریعے انسانی دماغ تک پہنچ جاتا ہے جس سے 100فیصد موت واقع ہو جاتی ہے۔ ماہرین صحت اس بات سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ نگلیریا سے بچاؤبھی 100 فیصد ممکن ہے اگر پانی کی کلورینیشن کی جائے اور پانی میں کلورین کی مطلوبہ مقدار پوری کی جائے لیکن اس حوالے سے محکمہ صحت سندھ تاحال غافل نظر آتا ہے۔
واضح رہے کہ رواں سال نیگلیریا سے ایک ہلاکت ہو چکی ہے جبکہ گزشتہ سال اس سے دو اور سال 2015 میں 14 ہلاکتیں ہوئی تھیں جس پر انسداد نیگلیریا کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جو روزانہ کی بنیاد پرشہر کے مختلف علاقوں سے پانی کے نمونے لے کر اس میں کلورین کی مقدار چیک کرتی تھی۔ رواں سال کمیٹی کے کام کی رفتار سست ہے۔ اس سلسلے میں نیگلیریا کے حوالے سے فوکل پرسن ڈاکٹر ظفر مہدی کا کہنا تھا کہ نیگلیریا کمیٹی رواں سال اپریل میں تشکیل دے دی گئی تھی۔
کمیٹی نے رواں ہفتے سے کام شروع کیا ہے اور پانی کے نمونے حاصل کیے جارہے ہیں ،جن میں کلورین کی مقدار چیک کی جائے گی اگر مقدار کم ہوگی تو واٹر بورڈ کو آگاہ کیا جائے کیونکہ پانی میں کلورین کی مقدار پوری کرنا واٹر بورڈ کی ذمہ داری ہے۔