لاہور (ویب ڈیسک) ذوالفقار علی بھٹو نے جب بھارت کے مقابلے میں ایٹمی پروگرام شروع کرتے وقت کہا کہ ’’گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے‘‘ تو قوم نے اسے محاورہ جان کر واہ واہ کی۔ لاہور میں جب اسلامی کانفرنس ہوئی تو اس میںشاہ فیصل، معمر قذافی اور بھٹو کی تکون خاص طور پر نامور کالم نگار اشرف شریف اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ مرکز نگاہ رہی۔ تینوں نے اپنے ملکوں اور مسلم اُمہ کیلئے ’’گھاس کھانے‘‘ کا اعلان کیا اور تینوں کی موت افسوسناک طریقے سے ہوئی۔ نواز شریف تو خیر عالمی سیاست کی نزاکتوں سے واقف ہی نہیں۔ اس جہل کا انہیں فائدہ ہوا کہ ان کی ہر حکومت کے دوران یہ سمجھا گیا کہ خارجہ تعلقات کوئی اور چلا رہا ہے، حالانکہ کوئی بھی نہیں چلا رہا تھا۔ بے نظیر بھٹو بین الاقوامی امور کو بہت اچھی طرح سمجھتی تھیں۔ پاکستان کا کوئی لیڈر ان سے زیادہ خارجہ تعلقات کے محاذ پر سرگرم نہیں رہا۔ سوشلسٹ ممالک کی کانفرنس میں انہیں بڑے احترام سے مدعو کیا جاتا۔ تھرڈورلڈ ممالک کی کانفرنس میں عالمی رہنما ان کی گفتگو توجہ سے سنتے۔ اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں شرکت کے دوران دوسرے ممالک کے سربراہوں سے ملاقات کا وقت لینے کیلئے لابنگ نہیں کرنا پڑتی تھی۔ وہ اپنی سیاسی اور جمہوری جدوجہد سے اپنا ایک مقام بنا چکی تھیں۔ بے نظیر بھٹو نے پچیس سال کی عمر میں پہلا انٹرویو بشیر ریاض کو دیا۔ اس انٹرویو میں ان کا لہجہ امریکہ کے حوالے سے وہی تھا جو بھٹو صاحب کے پرجوش سٹائل میں جھلکتا تھا مگر بھٹو صاحب کی موت کے بعد بے نظیر بھٹو نے کبھی بین الاقوامی طاقتوں کو چیلنج نہیں کیا۔ انہوں نے روڈ ونگ میزائل کو غوری بنانے کیلئے بہت بڑا کردار ادا کیا مگر خاموشی کے ساتھ۔ پرویز مشرف کو رچرڈ آرمٹیج نے دھمکی دی! ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارا ساتھ نہ دیا تو پاکستان کو پتھر کے زمانے میں دھکیل دیں گے‘‘ ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو آج بھی پرویز مشرف کو بزدل کہہ کر اس امریکی دھمکی کا حوالہ دیتے ہیں۔ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پاکستان اگر طالبان کی حمائت کر دیتا اور امریکہ کا ساتھ دینے سے انکار کر دیتا تو ہماری مشکلات ختم ہو جاتیں۔ سوال کیا جا سکتا ہے کہ طالبان تو پہاڑوں میں چھپ گئے آپ اپنے پرامن لوگوں کو لے کر کہاں جاتے، پھر پہلے تو سعودی عرب اور امارات رقم فراہم کرتے جس سے افغان طالبان لڑا کرتے، ان دونوں ممالک نے ابتدا میں ہی امریکہ کے سامنے سر جھکا لیا تھا۔ پرویز مشرف نے یہ فیصلہ بھٹو کے گھاس کھانے والے اعلان کو سامنے رکھتے ہوئے کیا۔ عمران خان کی پذیرائی کا ایک پہلو یہ ہے کہ انہیں پوری دنیا میں پہچانا جاتا ہے۔ وہ ایک بین الاقوامی ہیرو ہیں۔ عمران خان متحدہ عرب امارات گئے تو شیخ محمد انہیں ایک ہیرو کا پروٹوکول دے رہے تھے۔ سعودی شہزادہ محمد بن سلیمان بھی انہیں ایسا ہی جانتے ہیں۔ ملائشیا کی بزرگ خاتون اوّل نے جب ان کا ہاتھ تھامنے کی خواہش ظاہر کی تو عمران خان تب بھی ایک سیاستدان نہیں، ہیرو تھے۔ یہ شناخت ان کا اثاثہ اور پاکستان کیلئے سرمائے کا درجہ رکھتی ہے۔ صرف وہ اپنے معاملات میں ایک دانشمند سیاسی لیڈر کا رنگ شامل کر لیں۔ ہمارے ہاں مارکیٹنگ کے اعلیٰ دماغ موجود ہیں۔ کئی لوگوں کو وزیر اعظم خود جانتے ہوں گے۔ یہ لوگ بتا سکتے ہیں کہ پاکستان فوری طور پر کیا چیز برآمد کر سکتا ہے۔ انہیں منڈیوں کا بھی پتہ ہے۔ دنیا کے کس ملک میں کیا صلاحیت کام آسکتی ہے، ان لوگوں کو معلوم ہے۔ وزیراعظم اپنی پہچان اور بین الاقوامی مقبولیت کو ضائع مت کریں۔ برطانیہ کے امرا سے بات کریں، افریقی یونین سے ابھی تک ان کا رابطہ نہیں ہوا۔ سارک ممالک کے سربراہوں سے کوئی علیک سلیک نہیں ہوئی۔ ان ملاقاتوں میں ہمیشہ معاشی فوائد شامل ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں نواز شریف اسی وجہ سے ناکام تھے کہ ان کی خارجہ پالیسی پیداواری اور تجارتی معیشت کو مستحکم نہیں کر سکی تھی۔ ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ ہم چینی نہیں جو صدیوں تک ایک معاملے کا تجزیہ کرتے رہتے ہیں اور پھر صدیوں تک اس کا سبق یاد رکھتے ہیں۔ 71 برس کے دوران ہم نے اتنی تیزی سے دوست اور دشمن تبدیل کئے ہیں کہ دنیا میں ہماری ساکھ امریکہ جیسی ناقابل بھروسہ ہو گئی ہے۔ ایسا صرف اس وقت ہوتا ہے جب قوم وقتی فوائد کے پیچھے لگ جائے۔ پاکستان کی زرعی معیشت کو کچے پکے طریقے سے صنعتی بنانا دراصل ایک جال تھا۔ مقصد خوراک میں خود کفالت کا خاتمہ تھا۔ جدید اصطلاح میں اسے فوڈ سکیورٹی کا موضوع کہا جا سکتا ہے۔ صنعتی زندگی آپ میں سہل پسندی اور آسائشات کی طلب بڑھاتی ہے۔ یہ طلب ہی مصنوعات کیلئے مارکیٹ کی گنجائش بناتی ہے۔ پاکستان کا ہر شخص بین الاقوامی برانڈز کے لباس، گھڑیاں، کاریں، جوتے، زیورات اور کمپیوٹر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ شاپنگ کیلئے لوگ دوبئی، لندن۔ پیرس اور سنگا پور جاتے ہیں۔ ایک دوسرا پہلو بھی دیکھ لیں۔ سینٹ کی کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ امریکی کمپنی پے پال نے آن لائن رقوم کی ترسیل کا آپریشن پاکستان میں قائم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ پاکستان آن لائن رقوم کی ترسیل کے حوالے سے چند اہم ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ امریکی کمپنی دنیا کے 190 ممالک میں کام کر رہی ہے۔ پاکستان میں تین کروڑ 60 لاکھ لوگ کریڈٹ کارڈ استعمال کرتے ہیں۔ امریکہ ہر جگہ میزائلوں اور بموں سے حملہ نہیں کرتا، اس کے پاس معاشی اور مالیاتی ہتھیار بھی ہیں۔ امریکہ دنیا کا سب سے بڑا مفاد پرست ہے۔ ہم عشروں تک اس کے مفادات کے باڈی گارڈ بنے رہے۔ ہم اب بھی اس کے کچھ مفادات کے محافظ ہیں لیکن ایک جملہ عرض کئے دیتا ہوں۔ کاشت سے پہلے ہمیشہ زمین میں ہل چلایا جاتا ہے۔ پاکستان کو معاشی مشکلات کا شکار کرکے ایک کھیت تیار کیا جا رہا ہے۔ دیکھئے برسوں پہلے لیبیا، شام، ایران اور پاکستان کو برائی کا محور کہنے والے کیا فصل بوتے ہیں۔ اس سے پہلے ہمیں اپنے لئے گھاس ضرور بو لینا چاہئے۔