امریکی وزیر دفاع کا دورہ پاکستان ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب افغانستان میں جنگ کے شعلے خطر ناک حدوں کو چھو رہے ہیں۔
امریکی وزیر دفاع کا دورہ پاکستان ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب افغانستان میں جنگ کے شعلے خطر ناک حدوں کو چھو رہے ہیں۔ پاکستان کا ہمیشہ مو قف رہا ہے کہ امریکہ دہشتگردوں کیخلاف خفیہ اطلاعات کا تبا دلہ نہیں کر رہا، مشرف دور میں امریکہ کی جانب سے انٹیلی جنس شیئرنگ کی گئی تھی بلکہ ڈورن حملوں کے اڈے پاکستان کے اندر تھے جہاں سے فاٹا میں بمباری کی جاتی تھی۔چند روز پہلے ایک خطرناک بات ہوئی ،پاکستان کے اندر ایک ڈرون حملہ ہوا مگر پاکستان خاموش رہایہ نہیں بتایا گیا کہ اس حملے میں انٹیلی جنس شیئرنگ تھی یا امریکہ نے پہلے حملے کی وارننگ دی تھی یا یہ ایک سرپرائز حملہ تھا۔
در اصل افغانستان کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہو گیا ہے ۔اب اس میں صرف پاکستان یا امریکہ ملوث نہیں بلکہ ایران بھی شامل ہے اس بارے میں بہت سی شکایتیں ہوئی ہیں کہ ایران بھی طالبان کو پناہ دے رہا ہے ۔طالبان کے روس اور وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ بھی رابطے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کے پاکستان کے بغیر کسی کے ساتھ رابطے نہیں ہیں، ایران کے ساتھ ان کی بات چیت نہیں ،روس کے ساتھ خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی دشمنی ہے اور افغانستان کے بارے میں ان کے مابین کوئی تعاون نہیں ہے۔
پاکستان کی طرح امریکہ کے بھی خطے میں کم دوست رہ گئے ہیں ،پاکستان کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ نہیں ہورہی اور اس وجہ سے دونوں طرف اور پیچیدہ حالات ہوسکتے ہیں مگر میں کافی عرصہ سے کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کو بھی پہل کرنی چاہئے دنیا یہ چاہتی ہے کہ پاکستان کی مدد سے افغان حکومت اور طالبان کے مابین بات چیت شروع ہوسکے طالبان کے بزرگ یہیں بسے ہوئے ہیں یا پھر وہ ہمارے رابطے میں ضرورہیں اور ابھی تک فیصلے وہی کر رہے ہیں مذاکرات شروع نہ ہونے کی مختلف وجوہات ہیں ۔طالبان کہتے ہیں وہ افغان صدر اشرف غنی سے پہلے امریکیوں سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں جبکہ امریکی ان کے ساتھ مزید بات چیت پر آمادہ نہیں ، وہ کہتے ہیں طالبان کابل سے مذاکرات کریں ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ جنگ خطرناک صورتحال میں جاری ہے ،طالبان خودکش حملے کر رہے ہیں ،امریکی بمباری بڑی خطرناک ہے جو امریکہ نے پانچ چھ سال سے نہیں کی تھی ،افغانستان میں جاری جنگ ایک خطرناک موڑ پر آچکی ہے۔