واقعہ معراج نبی کریمﷺ کی حیات طیبہ کا وہ واقعہ ہے جس سے ان کی ساری کائنات پربرتری روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی۔ ثاقب رضا مصطفائی اپنے ایک بیان میں واقعہ معراج میں براق،حضرت موسیٰؑ ، نور کی سیڑھی، فرشتوں کی رفتار،جبرائیل امینؑ کی رفتار کے بعد حضور اکرم ؐ کی رفتار مبارک کا بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ایک ہزار کلومیٹر کی رفتار سے چلنےوالے جہاز کی پشت پر بیٹھ جائے اور جہاز اس کو لے کر اڑےتو اول تو وہ ہوا کے تھپیڑوں کو ہی برداشت نہیں کر سکے اور دوسرا وہ اسرفتار کی تاب ہی نہ لا سکتا اور ہوا کی رگڑ سے جل جائے گا مگر آپ دیکھئے کہ نبی کریمﷺ کس طرح براق کی ننگی پشت پر سوار ہو کر اس کی ایک ہی چھلانگ میں مسجد اقصیٰ میں جا پہنچے ۔ ثاقب رضا مصطفائی کا کہنا تھا کہ اس رفتار سے اگر کوئی شخص گزرے تو اسے گزرنے والے چیزیں صحیح طریقے سے نظر نہیں آتیں اور وہ ان کو نہ صحیح طریقے سے دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی پھر یاد رکھ سکتا ہے مگر حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ مسجد اقصیٰ تک کے سفر کے دوران میں نے حضرت موسیٰ ؑ کو ان کی قبر میں نماز پڑھتے دیکھا ، پھر فرمایا کہ وہ مجھ سے پہلے مسجد اقصیٰ میں موجود تھے۔ ثاقب رضا مصطفائی کہتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت موسیٰؑ نبی کریمﷺ سے پہلے مسجد اقصیٰ پہنچ جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کریمﷺ اپنی رفتار سے جا ہی نہیں رہے تھے وہ تو براق کی رفتار سے سفر کر رہے تھے جبکہ حضرت موسیٰؑ مسجد اقصیٰ میں نبوت کی رفتار سے پہنچے۔ مسجد اقصیٰ سے آگے نبی کریم ﷺ نور کی ایک سیڑھی کے ذریعے پہلے آسمان پر پہنچے اور اور پھر وہاں سے فرشتوں کے پروں پر ساتویں آسمان پر اور پھر وہاں سے سدرۃ المنتہا جبرائیل امینؑ کے پروں پر اور وہاںپہنچ کر جبرائیل امینؑ نے فرمایا کہ حضور ﷺ اس سے آگے جائوں گا جل جائوں گا۔ ثاقب رضا مصطفائی کہتے ہیں کہ ابھی حضورﷺ کی رفتار شروع ہی نہیں ہوئی تھی آپ اندازہ کیجئے کہ براق ، پھر حضرت موسیٰؑ اور پھر نور کی سیڑھی، فرشتوں کی رفتار، فرشتوں کے سردار جبرائیل امین ؑ کی رفتار کا کیا عالم تھا۔ آپ آگے بتاتے ہیں کہ سدرۃ المنتہا پر جب حضورﷺ پہنچے تو وہاں پھرایک سبز نوری تخت لایا گیا جسے رف رف کہا جاتا ہےوہ پھر اس رفتار سے گیا جو سابق ذکر کردہ چاروں صورتوں سے زیادہ رفتار تھی، رف رف کی جب منتہائے پرواز ہوئی تو میں اعلیٰ حضرت کی روح سے فیض لے کر کہتا ہوں کہ پھر رف رف کی بھی بس بس ہو گئی، اب پانچ مراحل اپنی انتہا کو پہنچ چکے تھے، یہ حضورﷺ کی ذاتی رفتار نہیں تھی، ذاتی رفتار اس کے بعد شروع ہونے والی تھی،وہاں پھر حضورﷺ کو آواز آئی پیارے ! رک کیوں گئے ہو آگے آئو، ثاقب رضا مصطفائی کہتے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلویؒ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ پھر ڈرتے جھجکتے آگے بڑھے جس کی وجہ یہ تھی کہ حضورﷺ کو جلال و ہیبت کا سامنا تھا، جمال و رحمت ابھارتے تھے، حضورﷺ عبد تھے معبود کے سامنے حاضر ہو رہے تھے تو جلال و ہیبت کا سامنا تھا،آواز آئی کہ محبوب آگے بڑھئے، حضورﷺ نے ایک قدم اٹھایا، اب فاصلہ کتنا طے ہوا ایک قدم کاذرا اندازہ کیجئے مسجد حرام سے لیکر مسجد اقصیٰ تک براق نے جتنا فاصلہ طے کیا، مسجد اقصیٰ سے لیکر پہلے آسمان تک، نور کی سیڑھی نے جتنا فاصلہ طے کیا اور پہلے آسمان سے ساتویں آسمان تک اور پھر وہاں سے سدرۃ المنتہا تک جبرائیل امینؑ اور فرشتوں نے جتنا فاصلہ طے کیا،اور پھر اس کے بعد سبز نوری تخت رف رف جہاں تک گیا، ٹوٹل ان پانچ مراحل میں جتنے فاصلے طے ہوئے، حضورﷺ کے ایک قدم اٹھنے سے اتنے فاصلے طے ہو گئے، اب یہ رفتار تھی حضور اکرم ﷺ کی، پھر ہر قدم میں اتنا فاصلہ طے ہوتا، جتنا پیچھے قدموں سمیت فاصلہ طے ہو چکا ہوتا، اب کوئی حساب کر کے تو دکھائے، اللہ اکبر!اور پھر آواز آتی گئی ، بڑھ اے محمدؐ، قریب ہومحمدؐ، قریب آ سرورمحمدؐ، نثار جائیے وہ کیا ندا تھی، کیا سماں تھا، وہ کیا مزے تھے، وہ آواز 70ہزار مرتبہ آئی، اور حضور اکرمﷺ کے قدم اٹھتے گئے اٹھتے گئے، پھر کہاں تک پہنچے ، کوئی حد ہے ان کے عروج کی، ثاقب رضا مصطفائی فرماتے ہیں کہ اس کو میرے رب نے سفر نہیں کہا، کہا کہ یہ ابھی میرے نبیؐ کی سیر ہے۔ تم لوگوں کیا سمجھو گے میرے رسولؐ کو اس کی سیر اتنی صریح ہے کہ تمہاری عقلیں تھک گئی ہیں اور اگر وہ سفر کرنے پہ آئے تو پھر عالم کیا ہو گا۔