اتحاد میں ہی قوم کی بقا کے عنوان سے جنگ اخبار لندن میں 3 اپریل کو ایک کالم دیکھا۔ جو کہ میرے دوست نے لکھا۔ مجھے اس کالم کو پڑھ کو بہت افسوس ہوا کہ انہوں نے اپنی اس تحریر میں اس کانفرنس کے حوالے سے صرف منفی تصویر کشی کی جو کہ افسوسناک ہے۔ میں چونکہ اس کانفرنس کی وجہ سے اور کچھ نجی مصروفیات کی وجہ سے دو ہفتوں سے کچھ نہ لکھ سکا جس کے لئے معزرت بھی چاہتا ہوں مگر جب یہ کالم نظر سے گزرا تو سوچا کہ تصویر کے دوسرے رخ سے بھی سب کو آگاہ ہونا چاہئے۔ کالم لکھنے والے صاحب کو میں نے زاتی طور پر اس کانفرنس میں مدعو کیا تھا۔ انہوں نے مجھ سے شرکت کا وعدہ بھی کیا تھا مگر پھر شریک نہ ہوئے بلکہ اخلاقی طور پر مجھے اپنی شرکت نہ کرنے کی اطلاع بھی نہی دی۔
میرے دوست اگر اس تحریر کو ایک صحافی کی حثیت سے لکھتے تو اچھا تھا مگر چونکہ وہ یورپ میں پاکستانی مسیحیوں کے ایک اتحاد کا حصہ ہیں اور یوروپیئن ایکشن کمیٹی جس کی بنیاد کچھ عرصہ قبل فرانس میں رکھی گئ تھی اس کمیٹی کے میڈیا کورڈنیٹر بھی ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ وہ اور ان کی ایکشن کمیٹی ہماری اس کانفرنس کو شاید اپنے لئے کوئ خطرہ محسوس کر رہے ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ ان کی کمیٹی کے کسی بھی ممبر نے ہماری اس کانفرنس میں شرکت نہی کی۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس کانفرنس میں برطانیہ سے آئ سی سی کی بھرپور شرکت تھی جس میں چیئرمین قمر شمس، جنرل سیکٹری تسکین خان کے علاوہ عقیلہ داود، شفیق الزماں اور عمنوئیل رائے شامل تھے۔ یہ وہی آئ سی سی ہے جس کا میرے قابل صحافی دوست حصہ ہیں۔
ان میں سے کوئ ایک بھی آپ کی تحریر سے متفق نہی ہے۔ بلکہ سب نے اس کانفرنس کا ایک تاریخی کانفرنس قرار دیا ہے۔ رہی بات کہ آپ کو پرویز اقبال صاحب نے یہ ساری رپورٹ دی ہے تو میں سختی سے پرویز اقبال کی اس رپورٹ کو جھوٹ اور لغو قرار دیتا ہوں۔ ہماری یہ کانفرنس ایک روزہ کانفرنس تھی۔ اس میں شریک برطانیہ اور یورپ کے بہت سے دوست ایک دوسرے سے تفصیلی وافقیت نہی رکھتے تھے۔ اس لئے اگر کوئ اپنی تقریر کے دوران اپنے اور اپنی تنظیم کے بارے میں تعارف کروا رہا تھا۔ تو یہ تو ایک منطقی سی بات ہے۔ مجھے بھی اگر برطانیہ میں کسی جگہ اپنی تقریر کا موقع ملے گا تو میں بھی اپنی بات سے پہلے اپنے بارے میں کچھ نہ کچھ تو ضرور کہونگا۔ میرے صحافی دوست نے صرف منفی تصویر پیش کی جو کہ انتہائ غلط ہے میرا یہ دعوٰی ہے کہ برطانیہ سمیت تمام یورپ کے جتنے بھی لیڈرز اس کانفرنس میں شریک تھے کوئ ایک بھی اگر یہ کہہ دے کہ اس کانفرنس میں ان کو آپسی مسیحی محبت، اتفاق، یگانگت اور بھائ چارے کی فضا نظر نہی آئ تو جو سزا کہیں گے قبول کرونگا۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہم آپ سمیت آپکی یوروپئین ایکشن کمیٹی کے تمام ممبران کی عزت اور احترام کرتے ہیں۔
ہمارا مقصد قطئ طور پر یہ نہی ہے کہ ہم تمام سیاسی اور سماجی تنظیموں کو یہ کہیں کہ سب اپنا اپنا بوریا بستر باندھ کر ہمارے ساتھ آ جاؤ۔ ہم نے صرف یہ پیغام دیا تھا کہ ہم امتیازی قوانین سمیت چند نقات پر متفقہ طور پر کام کریں گے اور اپنے بہن بھائیوں کے برابری کے حقوق کے لئے جدوجہد کریں گے۔ اور پاکستان کی بقا اور سلامتی کا سامنے رکھتے ہوئے اس سسٹم کے خلاف آواز اٹھاہیں گے جو ہم اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بناتا ہے۔ ہم اس سسٹم کو بھی نا منظور کرتے ہیں جو مسیحیوں کو جبری مسلمان بنانے کی کوشش کرے گا حال ہی میں جیو ٹی وی نے معروف سماجی کارکن اور برطانیہ کے ایم بی ای ایوارڈ یافتہ جناب جوزف فرانس صاحب کا ایک انٹرویو دکھایا جس میں جوزف فرانسس صاحب نے بتایا کہ یوحنا آباد کے واقعہ کے نتیجے میں دو مسلمانوں کو مبینہ طور پر زندہ جلانے کے الزام میں گرفتار مسیحوں کو یہ پیشکش کی گئ کہ آپ سب مسیحی اگر اسلام قبول کر لیں تو ہم آپ کو ضمانت دیتے ہیں کہ آپ پر سے یہ تمام مقدمات ختم کر دئیے جائے گے۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت کے ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکوٹر سید انیس شاہ کی جانب سے یہ پیشکش بہت بار کی گئ۔ اس پیشکش کو چھپ کر ریکارڈ کر لیا گیا۔ پہلے تو جب جیو ٹی نے شاہ صاحب کو آن لائن لیا تو انہوں نے انکار کر دیا مگر جب ان کو بتایا گیا کہ آپ کی پیشکش کی ریکارڈنگ موجود ہے تو انہوں نے تسلیم کر لیا۔ اب ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کیا ان مسیحی ملزمان کو انصاف ملے گا۔ مجھے امید نہی ہے۔ اس غیرمنصفانہ سسٹم کے خلاف اگر ہم اپنی کمیونٹی کو اکٹھا کرتے ہیں تو ہمارے ہی درمیان میں سے ہمارے ہی بھائ اس اتحاد کی دیواروں کی بنیادوں کو کھوکھلہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس تحریر نے ہمیں تو نہی مگر ہماری کمیونٹی کے اتحاد کو زبردست نقصان پہنچایا ہے اور کمیونٹی کے درمیان تفریق پیدا کر دی جس کی مثال سوشل میڈیا پر نظر آرہی ہے۔ اب فیصلہ پڑھنے والوں کو کرنا ہے کہ کیا اس تحریر سے ہماری کمیونٹی کی کوئ خدمت ہوئ ہے یا پھر بیرون ملک پاکستانی مسیحیوں میں انتشار کی فضا پیدا ہوئ ہے۔