اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو ان سوالات کے جوابات نہیں دیئے جارہے جو وہ مانگ رہی ہے۔
سپریم کورٹ میں جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں پاناما عملدر آمد کیس کی تیسری سماعت شروع ہوگئی۔ وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات پردلائل دے رہے ہیں۔ وکیل خواجہ حارث کا اپنے دلائل میں کہنا ہے کہ کل میں نے وزیراعظم کا جے آئی ٹی میں بیان پڑھ کر سنایا تھا، جے آئی ٹی کو وزیراعظم نے اپنے اثاثوں کی تفصیل پیش کی، جے آئی ٹی نے مزید کسی اثاثوں سے متعلق سوال نہیں کیا، جے آئی ٹی میں پیشی تک اور کوئی اثاثہ تھا ہی نہیں، جے آئی ٹی کے پاس کچھ ہوتا توسوال ضرور کرتی، وزیراعظم کے رشتہ داروں نے کوئی جائیدادنہیں چھپائی جب کہ وزیراعظم کی کوئی بے نامی جائیداد نہیں ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے مزید اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ کسی دوسرے کے گھرمیں کچھ عرصہ رہنے والا ملزم نہیں بن سکتا، زیراستعمال ہونا اوربات ہے، اثاثہ سے فائدہ اٹھاناالگ بات ہے، آپ کے مطابق کسی کے گھررہنے والے پرنیب قانون کا اطلاق نہیں ہوگا، مہینوں سے سن رہے ہیں، فلیٹ کی ملکیت کے علاوہ ساری چیزیں واضح ہیں، اس کیس میں سوال 1993 سے اثاثے زیراستعمال ہونے کاہے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ کیس کی نوعیت مختلف ہے، اثاثہ وزیر اعظم کے نام نہیں، جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سیاق و سباق سے ہٹ کر بنائی گئی، قانونی تقاضوں کو سامنے نہیں رکھا گیا، جے آئی ٹی کی رپورٹ میں وزیر اعظم کے بے نامی اثاثوں کا کوئی ثبوت نہیں، لندن فلیٹ کے مالک کا نام سامنے آچکا ہے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس کے تمام پہلو ہم پر واضح ہیں، اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ وزیراعظم خود کسی بھی پراپرٹی کے مالک ہیں۔
خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی نے قانونی تقاضوں کو سامنے نہیں رکھا ، جے آئی ٹی کی رپورٹ میں وزیر اعظم کے نام اثاثوں کا کوئی ثبوت نہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ غلطی کہیں یا کوتاہی، نیب آرڈیننس میں بے نامی جائیداد کا کوئی ذکرنہیں جب کہ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس میں کہا کہ حدیبیہ کیس سے متعلق آپ کا نقطہ نوٹ کرلیا تھا، آپ اپنے دلائل دوہرا رہے ہیں جس پر وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ عدالت کا زیادہ وقت نہیں لوں گا، جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد پرانے معاملات ختم ہو چکے، اس حوالے سے کوئی شواہد نہیں لگائے گئے، لندن فلیٹس کے بارے میں جے آئی ٹی نے نہیں کہا کہ اصل مالک وزیر اعظم ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ لگتا ہے بے نامی دار کی تعریف لکھتے وقت قانون میں غلطی ہو گئی ہے، بے نامی دارکی اصل تعریف ہم سب جانتے ہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ وزیراعظم کی تقریر سے انکار نہیں کر رہا، وزیر اعظم کا ذاتی طور پر ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں، خاندان کے دوسرے افراد کی طرح جو معلومات تھیں وہ شیئر کیں، جے آئی ٹی نے کہا فلیٹ پورے خاندان کے ہیں، التوفیق کیس میں شریف فیملی کے ممبر شیئرہولڈر تھے، اسی کیس میں شریف فیملی کے ممبر شیئرہولڈر تھے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ حدیبیہ پیپر ملز کے مالکان میں مریم نواز بھی شامل ہیں، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ کمپنی کے حصص کا فیصلہ میاں شریف کرتے تھے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ لندن فلیٹس کب لیے اور کس نے ادائیگی کی، منی ٹریل کہاں ہے، جواب نہیں دیا جارہا، فنڈز سعودی عرب، دبئی یاقطر میں تھے، کہاں سے پیدا ہوکر لندن پہنچے، وزیر اعظم نے کہا انکے پاس تمام دستاویزات میں منی ٹریل موجود ہے، عدالت کوان سوالوں کے جواب نہیں دیئے جا رہے۔ سماعت کے باعث سپریم کورٹ کے اطراف میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں جب کہ ریڈزون میں عام شہریوں کا داخلہ بند ہے۔