لاہور: چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ صحت کے شعبے کو ٹھیک کرنا ہے اور عہدوں کی بندر بانٹ بالکل برداشت نہیں کریں گے۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ (پی کے ایل آئی) میں بھاری تنخواہوں پر افسران کی تعیناتی سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ پی کے ایل آئی کی جانب سے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر عامر یار خان عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور بتایا کہ اسپتال تاحال تعمیری مراحل میں ہے اور اس میں 43 ڈاکٹرز خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی کے ایل آئی کے سربراہ ڈاکٹر سعید اختر کتنی تنخواہ وصول کررہے ہیں اور کیا ڈاکٹر سعید کی اہلیہ بھی پی کے ایل آئی میں ملازمت کررہی ہیں؟۔ ڈاکٹر عامر یار خان نے بتایا کہ ڈاکٹر سعید اختر بارہ لاکھ روپے تنخواہ وصول کررہے ہیں اور ان کی اہلیہ بھی پی کے ایل آئی میں ملازمت کررہی ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ 8 لاکھ روپے ہے۔
چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے کہا کہ کیا سرکاری اسپتالوں میں کسی ماہر ڈاکٹر کو اتنی تنخواہ دی جا رہی ہے، چیف سیکرٹری صاحب اور سیکرٹری صحت صاحب، ہم نے صحت کے شعبے کو ٹھیک کرنا ہے، عہدوں کی بندر بانٹ ہم برداشت نہیں کریں گے، اگر پاکستان میں ٹیلنٹ ختم ہو گیا ہے تو ہمیں آپ بتا دیں، باہر سے آنے والے ڈاکٹرز اور مقامی ڈاکٹرز میں یہ امتیازی سلوک کیوں ہے، اگر آپ کا فارنزک آڈٹ کروا لیا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ بیس ارب میں سے سات ارب بھی نہیں لگا ہوگا۔
ڈاکٹر عامر یار خان نے کہا کہ پی کے ایل آئی میں تعینات ڈاکٹرز کے پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی عائد ہے، جس کی وجہ سے کسی بھی مقامی ڈاکٹر نے ملازمت کیلئے اپلائی ہی نہیں کیا، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بیرون ملک سے اعلی تعلیم حاصل کرکے واپس آنے والوں کو فلاحی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے نہ کہ کمرشل بنیادوں پر کام کیا جائے۔
شیخ زید اسپتال
چیف جسٹس نے شیخ زید ہسپتال کے لیور ٹرانسپلانٹ یونٹ کی بندش کے خلاف از خود نوٹس کی بھی سماعت کی۔ عدالت نے لیور ٹرانسپلانٹ یونٹ کی بندش پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایک ماہ میں یونٹ کو معیار کے مطابق بنانے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس نے شیخ زید ہسپتال سمیت تمام سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں تمام سہولیات ایک ماہ میں فراہم کرنے کا حکم بھی دیا۔
ڈاکٹر فیصل مسعود نے عدالت کو بتایا کہ ہسپتال میں ٹرانسپلانٹ یونٹ میں 2 اموات ہوئی تھیں، شعبہ معیار پر پورا نہیں اترتا تھا۔ چیف جسٹس پاکستان نے صوبائی وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق صاحب سے کہا کہ یہ کیا ہو رہا ہے، آپ نے ایک ہسپتال کو بہتر کرنے کی بجائے دوسرا ہسپتال بنا دیا، جب سے شیخ زید ہسپتال پنجاب حکومت کے زیر استعمال آیا، اس کی حالت ٹھیک نہیں ہوئی۔
خواجہ سلمان نے چیف جسٹس سے کہا کہ آپ شفقت کی نگاہ سے دیکھیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے شفقت کی نگاہ سے ہی دیکھا، لیکن ہسپتالوں میں کچھ نظر نہیں آیا، مجھے بتائیں سابق چیرمین شیخ زید کی تقرری کس کی سفارش پر ہوئی، ڈاکٹر فرید کس کے دوست ہیں اور انکے پیچھے کس کی سفارش تھی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا غفلت برتنے والے سرجن اور ڈاکٹرز کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی؟۔ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی ہڑتال کے باعث مریض رل جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ سلمان صاحب اس محکمے کے اندر بھی احتساب ہونا چاہیے۔