پا ک آرمی کا کسی این آراو سے تعلق نہیں 2018ء الیکشن کا سال، بہت زیادہ سیاست ہوگی ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور
راولپنڈی: (اصغر علی مبارک) پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ 23 مارچ کو بھارتی سفارتی عملے کو بلانا معمول کی بات ہے۔ جیسا ہم غیرملکی سفیروں اور سفارتکاروں کو بلاتے ہیں۔ بھارت نے 2017ء میں ایل اوسی پر سب سے زیادہ کاروائیاں کی ہیں۔ ایل او سی پر 2018ء کا آغاز 2017ء سے زیادہ بہتر نہیں ہے۔ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ پا ک آرمی کا کسی این آر او سے تعلق نہیں ہے۔ آرمی چیف کی بات چیت کو ڈی جی آئی ایس پی آر جاری کرتا ہے، اس کے علاوہ پاک فوج کا مئوقف بھی ترجمان پاک فوج ہی جاری کرتا ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے میڈیا بریفنگ میں کیا انہوں نے کہا کہ اب دنیا جیو پولیٹکس سے جیو اکنانومی کی طرف مڑ رہی ہے۔ ہمارے سامنے کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ سی پیک ہمارا بڑا چیلنج ہے۔ ہم نے اس منصوبے کو کامیاب کرنا ہے۔ ہم نے اس منصوبے کو جیو اکنانومی کے تحت دیکھنا ہے۔ دوسرا چیلنج یہ ہے کہ خطے میں دہشتگردی کے خاتمے اور دنیا میں امن قائم کرنے کیلئے اتنا کام کرنے کے باوجود ہمیں اگر شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا تواس کردار کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے انہوں نے کہا کہ آئندہ دنوں میں خوشحال بلوچستان پروگرام کے تحت بلوچستان میں ترقی ہوگی۔ 2013ء میں کراچی میں آپریشن شروع کیا آج کا کراچی آپ نے دیکھا کہ کراچی میں پی ایس ایل کا میچ کا ہوا۔ کراچی میں 70 نوگو ایریاز تھے۔ لیکن آج نہیں ہے۔ 2017ء میں جلسے جلوس ہوئے لیکن ان میں ایک بھی پرتشدد واقعہ پیش نہیں آیا۔ کراچی سٹاک ایکسچینج اوپر جارہا ہے۔ کراچی میں امن قائم ہونے کے باوجود ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں امن قائم کرنے میں اگر ہم کامیاب ہیں تو یہ خفیہ اداروں کی کاروائیوں کے نتیجہ میں ہے، پاکستان مخالف عناصر کو ہمارے خفیہ ادارے کامیاب نہیں ہونے دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا 1982ء سے سعودی عرب کے ساتھ فوجی معاہدہ چل رہا ہے۔ آرمی چیف نے سعودی عرب کا دورہ بھی کیا ہے۔
فوج دوطرفہ معاہدے کے تحت ایڈوائس و ٹریننگ کیلیے سعودی عرب جائےگی۔ سعودی عرب سے باہمی معاہدے کے تحت ہی پاکستانی فوج وہاں جائے گی۔ پاکستانی فوج صرف سعودی عرب کی سرحدی حدود کے اندرہوگی۔ پاکستانی فوج ایران کےخلاف کسی عمل کا حصہ نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری امن کی خواہش کو بھارت کمزوری سمجھ سکتا ہے نہ ہی بھارت کو کمزوری نہیں سمجھنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ 2018ء الیکشن کا سال ہے اس میں بہت زیادہ سیاست ہوگی۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ باجوہ ڈاکٹرائن کا میڈیا اینکرز کی ملاقات سے کوئی تعلق نہیں ہے، باجوہ ڈاکٹرائن میں 18 ویں ترمیم نہیں ہے، باجوہ ڈاکٹرائن یہ ہے کہ پاکستان کو امن کی طرف لے جانا ہے۔ اس کے علاوہ باجوہ ڈاکٹرائن کا اور کچھ مطلب نہ لیاجائے۔ باجوہ ڈاکٹرائن کا مطلب صرف ایک ہے اور وہ ہے پرُ امن پاکستان ہے۔ پاکستان کو امن کی طرف لے جانا سب پاکستانیوں کی خواہش ہے۔ آرمی چیف سے اینکرز کی ملاقات آف دی ریکارڈ تھی۔ کچھ میڈیا پرسن ایسے بھی تھے جو ملاقات میں موجود نہیں تھے لیکن انہوں نے بھی آرٹیکل لکھے اور خبریں بھی دیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ آرمی چیف کی وزیراعلیٰ پنجاب سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ میڈیا پر خبر چلی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی آرمی چیف سے 2 ملاقاتیں چھپ کر ہوئیں۔ میڈیا نے بغیر ثبوت یہ خبر دی کہ ملاقات چھپ کر ہوئی یہ غیر ذمے دارانہ بات ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ الیکشن کا اعلان آرمی کو نہیں الیکشن کمیشن کو کرنا ہے۔ آرمی الیکشن سے متعلق ہروہ کام کرے گی جو آئین کے تحت ہوگا۔ مسلح افواج کا تعلق ملک کی سیکیورٹی کے ساتھ ہے۔ نقیب محسود کے قتل کا کیس عدالت میں ہے۔ نقیب اللہ محسود قتل کیس میں راؤ انوار سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ نقیب محسود کے قتل میں جو بھی ملوث ہے سزا ملنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ نقیب محسود سے متعلق زیادہ معاملہ افغانستان کی طرف سے اٹھایا گیا۔ نقیب محسود کے قتل پر ذمے دار کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہے۔ نقیب اللہ محسود کے قتل پر ذمے دار کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے، راؤ انوار سپریم کورٹ میں پیش ہوئے، نقیب محسود سے متعلق زیادہ معاملہ افغانستان کی طرف سے اٹھایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کے ٹویٹ کے بعد پاک امریکا تعلقات میں فرق پڑا ہے۔ اگر پاکستان نے دنیا کے لیے مثبت کردار ادا نہ کیا ہوتا۔ اپنا کردار ادا نہ کیا ہوتا تو شاید آج امریکہ سپر پاور نہ ہوتا۔ انڈیا کوبھی شکر گزار ہونا چاہیے تھا۔ اگر پاکستان نے القاعدہ کو شکست نہ دی ہوتی تو یہ دہشتگردی کی جنگ انڈیا تک بھی پہنچ جاتی۔ غیرمستحکم پاکستان بھی بھارت کے مفاد میں نہیں ہے۔