لاہور: سندھ کو نہ صرف اس لیے برتری حاصل ہے کہ یہ خطہ قدیم ترین تہذیب اور تمدن کا حامل ہے بلکہ افضلیت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جس صدی میں عرب کے ریگ زار میں کلمۂ توحید کی صدا گونجی، عین اسی صدی میں ہی اس سرزمین نے بھی اس صدا پر لبیک کہہ کر اپنے آپ کو اسلام کی آغوش میں ڈال دیا۔
اسلام نے جو دینی اور دنیوی نعمتیں اپنے ماننے والوں کو بخشیں ان کے حصول میں بھی یہ خطہ سب سے پیش پیش رہا۔ جس زمانے میں تصوف کی داغ بیل عرب میں پڑی، اسی دور میں یہاں بھی اس کی نشوونما ہوئی۔ بہت سے اکابر، صوفیا اور جلیل القدر بزرگ انہیں ابتدائی صدیوں میں یہاں پیدا ہوئے جن کی کشش اور جذب نے دوسرے ممالک کے صوفیائے کرامؒ کو بھی فوراً ہی اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ عرب، عراق اور عجم سے جو صوفیائے کرامؒ ہندوستان اور پاکستان کی طرف آئے، ان میں سے زیادہ تر یہاں سے ہوتے ہوئے پھر دوسرے گوشوں کی طرف عازم ہوئے، اور کتنے اہل اللہ تو ایسے بھی ہیں جو یہاں آتے ہی یہاں کے ہو گئے، شیخ ترابیؒ، شیخ نوح بھکریؒ اور شیخ عثمان مروندیؒ اسی خاک میں پیوست ہوئے۔
خواجہ معین الدین اجمیریؒ جب ہندوستان تشریف لائے تو وہاں جانے سے پیشتر اپنے مرشد حضرت ہارونیؒ کی معیت میں سندھ پہنچے، اور سیہون میں رہ کر وہاں کے عامل کامل شیخ صدرالدین محمد احمد سیوستانیؒ سے سلوک کے مقامات طے کیے۔ اس واقعہ کی یادگار کے طور پر حضرت ہارونیؒ کی چلہ کشی کا حجرہ ابھی تک سیوستان کی پہاڑی پر موجود ہے۔ حضرت خواجہ فرید گنج شکرؒ اپنے پیرومرشد حضرت بختیار کاکیؒ کی ہدایت پر جب علوم ظاہری و باطنی کے لیے عازم سفر ہوئے تو آپؒ سیوستان میں بھی تشریف لائے۔ یہاں کے کئی دوسرے اولیائے کرامؒ سے ملاقاتیں کیں اور بہت کچھ ان سے حاصل کیا۔
سلسلہ چشتیہ کے لعل شب چراغ حضرت شیخ نصیر دہلویؒ بھی یہاں تشریف لائے۔ وہ اس وقت یہاں موجود تھے جب سلطان محمد تغلق نے ٹھٹھہ کے قریب وفات پائی۔ سلطنت ہند کا تاج فیروز کے سر پر آپؒ ہی نے یہاں رکھا اور یہیں سے آپؒ حضرت قطب الدینؒ کی ملاقات کو، ہانسی تشریف لے گئے۔ حضرت جلال الدین سرخ بخاریؒ جب اپنے وطن سے نکلے تو سب سے پہلے بھکر پہنچے اور وہاں کے جید صوفی حضرت سید بدرالدینؒ کی صاحبزادی سے عقد کیا۔ اسی بی بی کے بطن سے سید احمد کبیرؒ تولد ہوئے جن کے صاحب زادے حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشتؒ ہیں۔ حضرت جہانیاں جہاں گشتؒ کا اس سرزمین سے بہت ہی گہرا تعلق رہا ہے۔ سلطان فیروز اور سلاطین سندھ کے درمیان آپؒ ہی کی کوششوں سے صلح ہوئی اور آپؒ کے دو صاحب زادے سید صدرالدین اور سید ناصرالدین بھی بھکر میں مدفون ہوئے۔ حضرت شیخ بابو تاج الدین بھکریؒ جو اپنے دور کے کامل ولی تھے، آپؒ ہی کے خلیفہ تھے۔
شیخ بہاالدین زکریا ملتانیؒ، حضرت سہروردیؒ کی فرمائش پر جب عراق سے نکلے تو سب سے پہلے حضرت شیخ نوح بھکریؒ سے ملاقات کے لیے بھکر پہنچے۔ لیکن شیخؒ پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ اس لیے ملتان گئے لیکن سندھ میں آتے جاتے رہے۔ اگر اس طرح کے واقعات تاریخِ سندھ سے جمع کیے جائیں تو ہندوپاک کا شاید ہی کوئی صوفی اور بزرگ نکلے جو وادیٔ مہران نہ آیا ہو اور جس کا سندھ کی سرزمین کے ساتھ کسی نہ کسی وجہ سے تعلق خاطر نہ ہو۔
سندھ کا یوں تو ہر قصبہ اور قریہ، بلکہ یوں کہیے کہ چپہ چپہ اور گوشہ گوشہ تصوف اور عرفان، رشد اور ہدایت کا مرکز رہا ہے، لیکن خاص طور پر قدیم شہروں میں الور، دیبل، سیوستان، منصورہ، ٹھٹھہ، بھکر وغیرہ اور کئی جدید شہروں کو اس سلسلہ میں مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یہ عرفان و تصوف، اصلاح اخلاق اور تزکیۂ نفس کا سرچشمہ بنے رہے، اور سندھ میں سماجی انقلاب لانے کا باعث ہوئے۔ یہیں کی خانقاہیں تھیں جن کے نظام اصلاح و تربیت نے نہ صرف اخلاقی قدروں کو بلند کیا، بلکہ ایمان اور عمل کی قوتوں کو اجاگر کر کے خدا شناسی کی فضا قائم کی، اور معصیت کے تمام سوتوں کو خشک کردیا۔ آج کے دور میں بھی جب کوئی ان شہروں میں پہنچتا ہے تو جو قلبی سکون، ذہنی راحت اور روحانی طمانیت وہاں میسر آتی ہے وہ اور کہیں ملنی مشکل ہے۔ اور یہ ساری برکت اسی گزرے ہوئے زمانے کی وجہ سے ہے۔