سانحہ کارساز کو نو سال گزرنے کے باوجود بم دھماکوں میں پیاروں کو کھونے والے آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ حکومت نے انصاف دلوانے کے بجائے مقدمے کی فائل ہی بند کر دی۔
کراچی: اپنی محبوب رہنما کی آمد کی خوشیاں مناتے لوگ بچے، بوڑھے، جوان اور خواتین سبھی بی بی بے نظیر شہید کی ایک جھلک کو بے تاب تھے لیکن یہ خوشیاں اور شادیانے آہوں اور سسکیوں میں بدل گئے۔ ایک کے بعد ایک دو بم دھماکے ہوئے اور منظر ہی بدل گیا۔ 18 اکتوبر 2007 کو 8 سالہ خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے بے نظیر بھٹو شہید کراچی پہنچی تھیں۔ جب سفاک دہشت گردوں نے استقبال کے لئے آنے والوں کو کارساز پر نشانہ بنایا۔ بم دھماکوں میں 150 سے زائد افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔ سانحے کو نو سال ہونے کو ہیں لیکن تاحال ان بم دھماکوں کے ذمہ داروں کا تعین ہی نہیں کیا جا سکا۔ دونوں دھماکوں کی صرف ایک ایف آئی آر درج ہوئی جس میں ملزمان کو نامعلوم بتایا گیا۔ چھبیس فروری 2008 کو پنجاب پولیس نے بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ القاعدہ کے دہشت گرد قاری سیف اللہ کو گرفتار کیا۔ جس کا راہداری ریمانڈ حاصل کر کے دہشت گرد کو کراچی پولیس کے حوالے کیا گیا تاہم بعد میں پولیس نے اسے بے قصور قرار دے کر رہا کر دیا۔ کیس کی تفتیش اس وقت رک گئی جب مقدمے کے تفتیشی آفیسر ڈی ایس پی نواز رانجھا کو قتل کر دیا گیا۔ حکومتی سنجیدگی یہ کہ سابق وزیر اعلی ارباب غلام رحیم کے حکم پر تشکیل تحقیقاتی ٹربیونل کو بھی پیپلزپارٹی کی حکومت نے تحلیل کر دیا اور آج نو سال ہونے کے باوجود مقدمہ زیر التوا ہے۔ پولیس کی ناقص تفتیش اور غفلت کی وجہ سے مقدمے کی فائل داخل دفتر کر دی گئی ہے۔