ایک جوان آسٹریلین لیوک بریٹ مور کی نوکری ختم ہوئے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا جب ان کے بینک نے غلطی سے ان کی کریڈٹ کی حد لامحدود کر دی۔ لیوک بریٹ کے لیے یہ ایک سنہری موقع تھا۔ انھوں نے خود بتایا کہ کیسے پیسے خرچے اور اس وقت تک نہیں رکے جب تک ایک دن ان کے دروازے پر دستک ہوئی۔
یہ غیر یقینی بات ہے لیکن میرا ارادہ ہرگز یہ نہیں تھا کہ میں سینٹ جارج بینک کی رقم واپس نہیں کروں گا بلکہ میں پورے پیسے واپس کرتا۔
میں اصل میں انتظار کر رہا تھا کہ بینک مجھ سے رابطہ کرے اور کہے ‘آپ سے ہمیں اتنی رقم چاہیے’ اور میں یہ کرتا۔
2010 میں میں ایک عام دن پر بینک گیا۔ میرے گھر کا قرض، ہیلتھ انشورنس اور دیگر بلز کی تاریخ نزدیک آ رہی تھی۔
میرا ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور میری تنخواہ دوسرے بینک میں جانے لگی۔ پہلے ہفتے مجھے فکر تھی کہ میرے پاس گھر کا قرضہ اتارنے کے لیے رقم نہیں تھی میں کیا کروں گا؟ لیکن پھر سینٹ جارج بینک میں گھر کے قرضے کی قسط منظور ہو گئ اور میں نے شکر کیا۔
اور پھر دو ہفتے بعد 500 ڈالر کی قسط منظور ہو گئی۔ ایسا اگلے 12 مہینے ہوتا رہا اور بینک نے کبھی رابطہ نہیں کیا لیکن میرا اکاؤنٹ واجب الادا قرض بڑھتا گیا۔
اس وقت میں نے جس کمپنی سے گھر کا قرض لیا تھا ان کو فون کیا اور کہا ‘کیا آپ میرے سینٹ جارج بینک کے اکاؤنٹ سے پانچ ہزار ڈالر چارج کر سکتے ہیں؟ پھر کچھ روز بعد میں نے کہا 50 ہزار ڈالرلا اور دونوں بار رقم منظور ہو گئیں۔
میں بڑا حیران ہو ا۔ میں نے جلد ہی ایلفا رومیو 156 گاڑی خریدی۔ پھر میں نے ہنڈائی ویلوسٹر خریدی۔ میں نے یہ گاڑی اس لیے خریدی تاکہ میں سڈنی جا کر مازیراٹی خریدوں۔ ہنڈائی ویلوسٹر صرف 36 ہزار ڈالر کی آئی۔
یہ میرے لیے ایک پاگل پنے کا دور تھا۔ میں ایک 22 سالہ جوان تھا اور میری سوچ واضح نہیں تھی۔
میں حادثے کے بعد صحتیاب ہو رہا تھا اور 14 سال کی عمر کے بعد پہلی بار بے روزگار ہوا تھا۔ میرا رشتہ اپنی گرل فرینڈ سے ٹوٹ گیا اور میں ایک نئی زندگی کی ابتدا کر رہا تھا۔
میں گولڈ کوسٹ منتقل ہو گیا۔ میں سرفرز پیراڈائز گیا اور وہیں رہنا شروع کر دیا۔ میں نے بہت اچھا وقت گزارا اور وہ کیا جو نوجوان کرتے ہیں جب ان کے پاس بے تحاشہ پیسہ ہو۔
میں برہنہ ڈانس کلب گیا اور لڑکیوں پر، شراب پر اور کوکین پر ہزاروں ڈالر خرچے۔ میں نے اپنے لیے کشتی بھی خریدی۔ میں نے سٹریٹ آرٹسٹ بینکسی کا 10 پاؤنڈ کا نوٹ بھی خریدا اور یہ میرے لیے سب سے زیادہ اہم ہے۔
جب بھی میں نے سینٹ جارج بینک سے مزید رقم مانگی انھوں نے دی۔
میرے خیال میں میری والدہ کو شک تھا کہ میں منشیات بیچتا ہوں لیکن میرے خیال میں بعد میں ان کو یقین ہو گیا کہ میں یہ کام نہیں کر رہا۔
پھر 2012 میں میں اپنے بیڈ روم میں تھا جب کھڑکی پر زور زور سے دستک ہوا۔ جب تک میں دروازے تک پہنچا تو مسلح پولیس مکان میں داخل ہو چکی تھی۔ وہ اس طرح برتاؤ کر رہے تھے جیسے میں کوئی بدمعاش ہوں۔
وہ چیخ رہے تھے کہ میں زیر حراست ہوں اور مکان کی تلاشی لی۔
چند سال بعد مجھے دھوکے سے مالی فوائد اٹھانے پر ساڑھے چار سال کی سزا سنائی گئی۔
مجھے یقین تھا کہ مجھے سزا نہیں ہو گی اور مجھے بے قصور قرار دیا جائے گا۔ لیکن مجھے لیگل ایڈ کے ذریعے وکیل لینا پڑا جو اس کیس میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی انھوں نے کوئی اچھی کارکردگی دکھائی۔
جیل پہنچتے ہی میرا ہدف اپنی ضمانت کروانا تھا۔ میں نے جیل میں قانون کی بہت ساری کتابیں پڑنا شروع کر دیں۔
مگر ان دنوں میں ضمانت لینا مشکل تھا کیونکہ ضمانت پر رہا ہوئے کچھ افراد نے باہر نکل کر بہت سنگین جرائم کیے تھے۔ مجھے یہ ثابت کرنا تھا کہ نہ میں اپنی کمیونٹی کے لیے خطرہ ہوں اور نہ ہی میرے بھاگ جانے کا خطرہ ہے۔ ضمانت کے لیے مجھے اپنی وکالت خود کرنا پڑی۔ اور اس کاوش میں کامیاب ہوگیا۔
مجرمانہ مقدمے کے لیے میرا موقف انتہائی سادہ تھا۔ آسٹریلیا کے قوانین کے مطابق مجھ پر لازم نہیں تھا کہ میں بینک کو بتاتا کہ کیا ہو رہا ہے۔ میں نے مقدمے کے تمام دلائل تیار کر کے وکیل کو دیے اور چند ہی ہفتے قبل میں رہا ہو گیا۔
جیل کے دن میرے لیے انتہائی برے تھے۔ اتنے سالوں بعد میں ان دنوں کو کسی مثبت انداز میں ڈھال رہا ہوں۔ میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہا ہوں اور اب میری کوشش ہے کہ وکیل بن کر مظلوموں کی مدد کروں۔
جیلوں میں قید بہت سے لوگوں کو قید نہیں مدد کی ضرورت ہے۔ اور میں چاہتا ہوں کہ میں ان کی مدد کروں اور ان مشکلات میں گھیرے لوگوں کے مسائل حل کر سکوں۔