لاہور: میں ان ’’بدنصیب لکھاریوں‘‘ میں شامل ہوں جو ٹیلی ویژن پر ’’نمودار‘‘ نہیں ہوتے۔ وہ کیوں ایسا نہیں کرتے؟۔۔۔ کیا ان کی زبانیں گنگ ہیں؟ ۔۔۔کیا ان کو لچھے دار گفتگو کا فن نہیں آتا؟۔۔۔ کیا وہ ذوقِ صوت و صدا سے عاری ہیں؟۔۔۔کیا ازسرتاپا شکل و صورت کے بدنما کنٹورز ان کے پردہ ء سکرین نامور دفاعی تجزیہ کار اور پاک فوج کے ریٹائرڈافسر لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ پر آنے کی راہ میں حائل ہو جاتے ہیں؟۔۔۔ کیا بات ہے کہ وہ ٹی وی سکرین پر آنے سے گریزاں ہیں یا گھبراتے ہیں؟۔۔۔ اپنی مثال دوں تو میں اساسی طور پر ایک ٹیچر ہوں۔ سکولوں اور کالجوں میں پڑھایا ہے، فوج میں 30برس تک ایجوکیشن کور میں صدہا لیکچر سنے اور سنائے ہیں، بطور انٹر پریٹر وی آئی پی ز اور وی وی آئی پی ز کی صحبت میں سالہا سال گزارے کیا کیمرہ شائی ہوں؟۔۔۔ اور اگر ان سے انٹرایکشن کیا اور اگر یہ سب کچھ ہے تو ٹی وی سکرین پر آنے سے گھبراہٹ کیسی؟کیا بات ہے کہ حرفِ نوشتہ کو حرف گفتہ پر ترجیح دیتا ہوں؟ میری فوج سے ریٹائرمنٹ اور نجی TV چینلوں کی پیدائش ہم عمر ہیں۔ جب یہ نیوز چینل منظر عام پر آئے تو بہت سے صاحبانِ میڈیا نے رابطہ کیا کہ آئیں اور خلقِ خدا کو راہ راست دکھائیں۔یہ ایک طویل داستان ہے۔ میں نے ان سب دوستوں سے معذرت کر لی اور اس کا جو سبب بتایا وہ بوجوہ ان کے سر پر سے گزر گیا۔۔۔ میں نے گزارش کی کہ دکھاتا بولتا میڈیا (TV) یا سنتا سناتا میڈیا لکھنے لکھانے والے میڈیا (اخبار)سے تاثر اور تاثیر کے اعتبار سے کھوکھلا اور خالی خولی یا عارضی اور آنی ہے۔ حرفِ نوشتہ، بہ نسبتِ حرف گفتہ و حرفِ شنیدہ، زیادہ قائم و دائم اور دیرپا ہوتا ہے اور باقی رہتا ہے۔