لاہور (ویب ڈیسک) اگر ایسے شواہد ہوتے کہ کسی ایک غذا کے کھانے سے قوتِ باہ، شہوت یا جنسی لذت بڑھتی ہے تو شاید یہ ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جاتی۔ایک متوازن خوراک، فعال طرزِ زندگی اور صحت مند ذہن، یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو زندگی میں جنسی لذت کو زیادہ دوام بخش سکتی ہیں۔ بی بی سی کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق ۔۔۔۔ لیکن کیا کوئی غذا ایسی ہوتی ہے جو ایک قدرتی طور پر شہوت انگیز ہوتی ہے؟ ایسے اجزائے خوراک جو جسم کے اندر خوشی پیدا کرنے والی کیمیائی خمیرے کو متحرک کرتے ہیں، وہ ایسی خوراک ہوتی ہے جو صحت مند جنسی زندگی میں اضافہ کرتی ہے یا دوسرے الفاظ میں ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قوتِ باہ میں اضافہ کرتی ہیں۔ آئیں ان نظریات کی تاریخ اور سائنس کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ آیا ان غذاؤں میں سے کوئی بھی آپ کی جنسی زندگی میں کوئی بہتری لاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ کیسانووا (اٹلی کا ایک مہم جُو جو اپنے معاشقوں کی وجہ سے مشہور ہے) اپنے ناشتے میں پچاس اوئسٹرز کھاتا تھا، لیکن افسوس ہے کہ اس غذا اور قوتِ باہ کے اضافے کا کوئی سائنسی تعلق نظر نہیں آتا تو پھر یہ بات اتنی مشہور کیوں ہوئی؟کہانی کچھ ایسی بیان کی جاتی ہیں کہ جب محبت کی یونانی دیوی ‘ایفروڈائٹ’ پیدا ہوئی تو وہ سمندر سے ابھری اور اس طرح سمندر کی خوراک کو قوتِ باہ بڑھانے والی خوراک سمجھا گیا۔ البتہ اس میں ایک خبر بھی ہے اور وہ یہ کہ ’اوئسٹرز میں جِست (زنک) ہوتا ہے جو جسم میں فوطیرون (ٹیسٹیرون) کی پیداوار کے لیے ایک بنیادی عنصر ہوتا ہے۔تحقیق کے ذریعے پتہ چلا ہے کہ جِست بظاہر مردوں میں بانچھ پن کا علاج کرتی ہے اور مادّہِ منویہ کو طاقتور بناتی ہے۔جست کا بہترین ذریعہ ایک تو صدف کے اندر کی مچھلی ہے۔ اس کے علاوہ یہ چوپاؤں کے گوشت، کدّو اور حشیش کے بیجوں اور تلوں میں ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ یہ اخروٹ، بادام اور کاجو کے علاوہ چنوں اور لوبیے جیسی پھلیوں اور دودھ اور پنیر وغیرہ میں بھی ملتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ گہرے رنگ کی چاکلیٹ کھانے سے وہی احساسات پیدا ہوتے ہیں جو آغازِ محبت میں کوئی شخص محسوس کرتا ہے، کیونکہ اس چاکلیٹ میں ‘فینائیل تھیلامائین’ نامی کیمیکل ہوتا ہے جو بے انتہا خوشی کا احساس پیدا کرتا ہے اور یہ کیمیکل محبت کرنے والوں کے محبت کے اوائل کے دنوں میں ان کے جسم میں پیدا ہوتا ہے۔ فینائیل تھیلامائین سے دماغ کے خوشی محسوس کرنے والے حصے میں ڈوپامائین پیدا ہوتی ہے۔ اس چاکلیٹ میں فینائیل تھیلامائین کی بہت ہی قلیل سی مقدار ہوتی ہے، اسی لیے اس بات پر شک کیا جاتا ہے کہ جب یہ کھائی جاتی ہے تو اس کا کوئی خاص اثر ہوتا ہے۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ ناریل سے حاصل ہونے والے کوکو سے خون کے بہاؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اب یہ سمجھنا چاہیے کہ اس چاکلیٹ اور قوتِ باہ کا آپس میں تعلق کب بنا؟ 16ویں صدی کے ہسپانوی بحری سیاح، ہرنان کورٹیز جس کے متعلق کہا جاتا ہے وہ پہلا یورپی تھا جس نے چاکلیٹ کو دریافت کیا تھا، اس نے ہسپانیہ کی بادشاہ کارلوس اول کو لکھا تھا کہ اس نے جنوبی امریکہ کی قدیم تہذیب ‘مایا’ کے لوگوں کو اس چاکلیٹ کو پیتے ہوئے دیکھا ہے جس سے ان کی ‘قوت مزاحمت میں اضافہ ہوتا ہے اور تھکان میں کمی پیدا ہوتی ہے۔’شاید ہسپانویوں نے چاکلیٹ سے وہ طبی فائدے منسوب کر دیے ہیں جو خود ‘مایا’ تہذیب کے لوگوں نے بھی نہیں جوڑے تھے، اور پھر ایسے شواہد بھی نہیں ہیں کہ اس چاکلیٹ کا قوتِ باہ میں اضافے سے کوئی تعلق بنتا ہے۔ لحمیاتی خوراک یا ٹرِپٹوفین کے دیگر ذرائع میں انڈے، مرغیاں، ساگ، چاروں مغز، بادام وغیرہ اور سویا سے بنائی گئی مصنوعات بھی شامل ہیں۔ تیز مرچوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں ‘کیپسیسین’ جیسے کیمیکلز ہوتے ہیں جسے کھانے کے بعد جسم میں موجو افیونی اجزا کا اخراج ہوتا ہے جو ایک مخصوص قسم کی لذت پیدا کرتے ہیں۔ یہ جسم میں توڑ پھوڑ کے عمل (میٹابولِزم) کی رفتار کو تیز کرتے ہیں اور جسم کے درجہ حرارت اور دل دھڑکنے کی رفتار کو بڑھاتے ہیں۔ یہی کیفیت اس وقت بھی جسم میں پیدا ہوتی ہے جب ہم جنسی عمل کرتے ہیں۔ شراب سے شاید جنسی خواہش میں اضافہ ہوتا ہو کیونکہ اس سے سماجی رکاوٹوں کا احساس کم ہو جاتا ہے، لیکن جیسا کے انگریزی ادب میں شیکسپئیر کے ڈرامے کے ایک کردار ‘میکبیتھ’ نے نشے کی حالت میں کہا کہ ‘اس سے خواہش کا پیدا ہونا تو ثابت ہوتا ہے لیکن اس سے کارکردگی کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔’بہت زیادہ شراب نوشی سے مرد اور عورت دونوں میں ایک دوسرے کو محسوس کرنے کی حساسیت کم ہوجاتی ہے اور طویل عرصے تک شراب نوشی سے جنسی خوہش بھی کمزور ہونے لگتی ہے جس کے نتیجے میں بانچھ پن بھی پیدا ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ ہر وقت مہ کدے جیسی بو آنے سے جنسی خواہش میں اضافہ نہیں ہوتا ہے۔تحقیقات کے ذریعے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پودوں والی خوراک میں ‘فلاوونائڈ’ ہوتی ہے جس سے ایریکٹائل ڈسفنکشن یا ایستادگی میں کمی ہونے کے خطرے کو روکے جانے کے امکانات ہوتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ایک مخصوص فلاوونائڈ جو ‘اینتھوسیانِن’ کہلاتا ہے بلیوبیریز، مالٹوں، سنگتروں وغیرہ میں پایا جاتا ہے اور اس میں ایستادگی میں کمی کے خطرے کو روکنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔روزمرّہ کی خوراک میں اگر پھلوں کی مقدار زیادہ ہو تو ایستادگی میں کمی کے خطرے کو روکنے کے چودہ فیصد امکانات بڑھ جاتے ہیں اور اگر فلاوونائڈ سے بھر پور خوراک کے استعمال اور جسمانی ورزش کو مربوط طریقے کے ساتھ کیا جائے تو اس خطرے کو کم کرنے کے امکانات 21 فیصد ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا پھلوں کو اپنی خوراک کا حصہ بنائیں۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ یورپ میں بحیرۂِ روم کے علاقوں کی خوراک کھانے سے بھی جنسی فعالیت کو بڑھا کر ایستادگی میں کمی کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس خوراک میں اجناس، پھل، سبزیاں، پھلیاں، اخروٹ اور زیتون کے تیل کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔’اینتھوسیانِن’ حاصل کرنے کے لیے شاہ دانہ، بیر، سیاہ توت، رس بھری، کالی کشمش، کرینبری، کروندا، بینگن اور بند گوبھی کو بھی خوراک میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ قوتِ باہ بڑھانے کے لیے جو خوراک استعمال کی جاتی ہیں انھیں انگریز میں ‘ایفروڈیزِک فوڈ’ کہا جاتا ہے۔ یہ نام یونانی دیوی ایفروڈائیٹ کی وجہ سے رکھا گیا تھا۔اس قوت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: اول شہوت، دوئم جسمانی طاقت اور سوئم جنسی لذت۔ ان میں کسی کے بارے میں سائنسی معیار کے مطابق کو رائے قائم نہیں کی جا سکتی کیونکہ مختلف افراد میں ان غذاؤں کے استعمال کے مختلف قسم کے نتائج نظر آئے ہیں۔ درحقیقت اگر کسی ایک قسم کی خوراک کے ‘ایفروڈیزک’ خوراک کے طور پر موثر ہونے کے شواہد نظر آئے تو وہ زیادہ پکّے ہوئے اور کچھ گل سے گئے پھلوں کی خوشبو ہے۔ مگر افسوس کہ ایسے پھلوں کا اثر بھی صرف پھلوں پر بیٹھنے والی نر مکھیوں میں دیکھنے کو ملا۔ جنسی صحت کے بارے میں علوم کے ماہر ڈاکٹر کرِچمن کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں لوگ اس لیے ‘ایفروڈیزک فوڈ’ کھاتے ہیں کیونکہ ان کو یقین ہوتا ہے کہ ان کے کھانے سے قوتِ باہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ اگر ایک خوراک آپ کے لیے موثر ہو تو کیا اس کے کوئی معنی ہیں کہ کیوں؟ کئی اعلیٰ معیار کی غذائیں مبینہ طور پر ‘ایفروڈیزک فوڈ’ کہلاتی ہیں، لیکن بہتر یہ ہو گا کہ پودوں سے حاصل کی گئی ایسی غذاؤں سے پرہیز کریں اگر ان پر واضح معلومات درج نہ ہوں اور وہ کسی قسم کے چمتکار دکھانے کا دعویٰ کرے۔ اگر آپ جنسی خوہش میں کمی محسوس کرتے ہیں تو ممکن ہے کہ آپ میں کوئی طبی نوعیت کا مسئلہ ہو، اس لیے کسی بھی مسئلے کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کریں۔