لاہور (ویب ڈیسک) پچھلے ہفتے بی بی سی کی سنگیتا مائسکا ایسے کئی لوگوں کا انٹرویو کیا جنھوں نے بتایا کہ ان کی زندگیاں سیکس کے جبر کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ ان میں ایک ایسی خاتون بھی شامل تھیں جنھیں شادی کے 20 برس بعد پتہ چلا کہ ان کے خاوند کی ایک خفیہ زندگی بھی ہے۔ یہ انھی کی کہانی ہے۔
خاتون بتاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔میرا ہمیشہ سے خیال تھا کہ میری شادی بڑی عام سی ہے۔ ہم شادی سے پہلے کئی سال اکٹھے رہے تھے اور شادی کے بعد ہمارے بچے پیدا ہوئے۔ میرا خاوند کا کامیاب کاروبار تھا۔ وہ خاصا وقت سفر میں گزارتے تھے تاہم ہر اختتامِ ہفتہ گھر آ جایا کرتے تھے، جب کہ میری توجہ بچوں کی پرورش پر ہوا کرتی تھی۔ وہ جب بھی گھر آتے تو بہت خوش لگتے تھے۔ مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے ۔ پھر ایک دن میں نے ان کے لیپ ٹاپ میں ایک ای میل دیکھی جس میں لندن کے ایک ہوٹل کی بکنگ تھی۔ میں حیران ہوئی کہ انھیں ہوٹل بک کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ۔ میں سارا دن اس بارے میں سوچتی رہی، آخر رات کو میں نے ان سے پوچھا۔ کوئی جواب نہیں آیا۔ ان کی خاموشی سے مجھے اندازہ ہوا کہ معاملہ سنگین ہے۔ میں نے پوچھا: ‘کیا ہو رہا ہے؟ مجھے ان کے اصل الفاظ یاد نہیں ہیں لیکن انھوں نے کچھ اس طرح کی بات کی کہ ان کے کسی کے ساتھ تعلقات ہیں اور اس پر انھیں افسوس ہے۔ میں کمرہ چھوڑ کر نیچے چلی گئی۔ مجھے ان کے ساتھ ایک کمرے میں رہنا گراں گزر رہا تھا۔ میں رونے لگی۔ آخر وہ نیچے آئے اور میرے سامنے بیٹھے اور کہا کہ انھیں سخت افسوس ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ عریاں کلبوں میں جاتے تھے جہاں ان کی ملاقات ایک رقاصہ سے ہوئی، اور دونوں اس قدر نزدیک آ گئے کہ انھوں نے ایک کمرہ بک کرا لیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے اس کے ساتھ سیکس کی ہے؟ ان کا جواب تھا ‘نہیں ۔ میں ان پر یقین کرنا چاہتی تھی۔ تن من سے ان پر یقین کرنا چاہتی تھی۔ میں بےحد پریشان تھی لیکن میرے اندر کوئی کہہ رہا تھا: ‘ہم یہ مسئلہ حل کر سکتے ہیں۔ یہ پکی عمر کا شخص ہے، ایک لمحے کے پاگل پن میں گرفتار ہو گیا۔ ہم اس مشکل مرحلے سے مل کر گزر سکتے ہیں۔ میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ کچھ دن گزارنے چلی گئی۔ میں نے سوچا کہ اس طرح مجھے اپنی سوچیں مرکوز کرنے میں مدد ملے گی ۔۔ میں نے سہیلیوں کو کچھ نہیں بتایا۔ میں یہ سب کچھ خود تک محدود رکھنا چاہتی تھی۔ میری نیند اور بھوک اڑ گئی تھی ۔ تاہم میرے دل میں شک کا ننھا سا بیج پھر بھی پنپتا رہا ۔ ای میل ملنے کے دو یا تین ہفتے بعد میں انھیں پکڑ لیا اور کہا کہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہو کہ تم نے اس عورت سے سیکس نہیں کیا۔ تب انھوں نے تسلیم کر لیا کہ ان کے اور اس عورت کے درمیان جنسی تعلقات چند ہفتوں سے چل رہے ہیں۔ میں انھیں تکتی رہی۔ ‘آپ نے یہ سب چھپایا کس طرح؟ مجھے کیوں پتہ نہیں چلا کہ کچھ ہو رہا ہے؟ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔ میں نے ان کی ساری ای میلز دیکھنا شروع کر دیں ۔ مجھے دوسرے ہوٹلوں میں بکنگ کی ای میلز ملیں۔ کئی ماہ پرانی، کئی سال پرانی۔ انھوں نے مجھے جو کہانی سنائی وہ غلط تھی ۔ پھر ایک دن چہل قدمی کے دوران میں نے ان سے پوچھا: ‘میں سب کچھ جاننا چاہتی ہوں۔ جب تک مجھے سب کچھ پتہ نہیں چلے گا میں اس وقت تک دباؤ ڈالتی رہوں گی۔’ میں نے دھمکی دی کہ میں ان کے بینک کے ریکارڈ دیکھنا شروع کر دوں گی ۔ انھوں نے کہا، ‘تم واقعی سب کچھ جاننا چاہتی ہو؟ مجھے معلوم نہیں تھا جو کچھ وہ بتائیں گے وہ اتنا تباہ کن ہو گا ،۔ ہماری شادی کے وقت سے اب تک وہ طوائفوں سے ملتے رہے تھے۔ وہ پورن ویڈیو دیکھتے تھے۔ بعض اوقات گھنٹوں تک۔ وہ عریاں کلبوں، سیکس کلبوں اور سیکس سینماؤں میں جاتے تھے ۔ میں نے کسی کو نہیں بتایا۔ میری ایک دو سہیلیوں نے پوچھا بھی کہ تم خاموش سی لگ رہی ہو لیکن میں بہانہ بنا دیتی۔ مجھے شرمندگی تھی۔ اگر میں کسی کو بتاؤں گی تو وہ ان کے بارے میں، یا میرے بارے میں کیا سوچے گا؟ مجھے لگا کہ لوگ ہماری شادی کو ڈھکوسلا قرار دیں گے۔ مجھے لگا جیسے میں ان کے لیے کافی نہیں تھی۔ میں اتنی خوبصورت یا سیکسی نہیں تھی ۔ میں ہمیشہ سے خاصی پراعتماد عورت رہی ہوں۔ میرا شمار ان عورتوں میں نہیں ہوتا تھا جو ہر ہفتے ناخن بنوائیں یا بوٹاکس کرواتی رہیں۔ میری عمر بڑھ رہی تھی۔ وزن میں اضافہ ہو رہا تھا۔ چہرے پر جھریاں آ رہی تھیں، لیکن میں سوچتی تھی کہ اس عمر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن اب میری خوداعتمادی چکناچور ہو گئی۔ میں نے خود پر سوال اٹھانا کر دیے ۔ میں نے گہرا میک اپ کرنا شروع کر دیا اور وزن بھی کم کر دیا۔ ویسے بھی میرا کھانے کو دل نہیں کرتا تھا۔ میں نے نئے کپڑے خریدنے اور بال بنوانے شروع کر دیے۔ پھر میں نے بوٹاکس بھی کروایا ۔ لیکن مجھے یہ بھی احساس تھا کہ میرے خاوند کی نفسیات میں کوئی خرابی ہے۔ کوئی بیماری۔ میں نے سوچا کہ انھیں علاج کی ضرورت ہے ۔ ہم ایک کلینک میں گئے اور ان کے رویے کے بارے میں بات کی کہ انھیں سیکس کا نشہ ہے۔ انھوں نے علاج کروانا شروع کر دیا، تاہم وہ کہتے تھے کہ معلوم نہیں یہ نشہ ہے یا کچھ برے فیصلوں کا نتیجہ۔ جب ہم نے شادی کی کونسلنگ شروع کی تو مجھے یاد ہے میں سوچا کرتی تھی: ‘میرے لیے اب سب کچھ تاریک ہے۔ میں کسی کو بتا تک نہیں سکتی کہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے ۔ ہم کئی مہینوں تک کونسلنگ میں جاتے رہے۔ ہم آپس میں بہت زیادہ بات چیت کرتے تھے۔ اپنے احساسات کے بارے میں، اچھی چیزوں کے بارے میں اور بری چیزوں کے بارے میں بھی ۔ رفتہ رفتہ مجھے احساس ہونے لگا کہ ہماری شادی اب متوازن ہو گئی ہے ۔ کیا میں اسے معاف کر سکتی ہوں؟ مجھے نہیں معلوم کہ معافی ہوتی کیا ہے۔ میں اس تکلیف کے لیے انھیں معاف نہیں کر سکتی جو انھوں نے مجھے دی۔ میں شاید کبھی بھی ایسا نہ کر سکوں۔ لیکن میں پھر بھی ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں اور مجھے ان سے محبت ہے۔ ان کے ساتھ زندگی اچھی گزر رہی ہے۔ کیا یہ معافی ہے؟ مجھے نہیں پتہ ۔ میرے خیال سے جو کچھ ہوا اس کے بعد باوجود ہم اچھے دوست ہیں، اور میں ان سے محبت کرتی ہوں۔ وہ بھی مجھے یقین دلاتے ہیں کہ انھیں مجھ سے محبت ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ بچوں کو اس بارے میں پتہ چلے۔ میرا خیال ہے کہ ان کے دل سے باپ کی عزت ختم ہو جائے گی۔ وہ اپنے باپ کی بڑی عزت کرتے ہیں ۔ ویسے بھی اگر آپ ان سے ملیں تو آپ کو گمان تک نہیں گزرے گا کہ انھوں نے یہ سب کچھ کیا ہے۔