لندن (ویب ڈیسک) عرب دنیا میں بی بی سی کے ایک حالیہ جائزے میں ایک غیرمتوقع بات سامنے آئی اور وہ یہ کہ یہاں خواتین کی نسبت مردوں کی طرف سے یہ شکایت زیادہ سامنے آئی کہ انھیں زبانی اور جسمانی طور پر جنسی ہراس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیا واقعی یہ بات سچ ہے؟ خاتون صحافی میگھا موہن اور انکے ساتھ حیدر احمد بی بی سی کے لیے اپنی ایک اسپیشل رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔ سامی (فرضی نام) 13 برس کے ہیں۔ وہ اپنے سکول کے بیت الخلاء میں تھے کہ ان سے بڑے دو لڑکے آئے اور انھوں نے سامی کو دیوار کے ساتھ لگا دیا اور ان کے جسم کو ہاتھ لگانا شروع کر دیا۔ شروع میں تو سامی خوف سے ساکت ہو گئے اور ان کا جسم مفلوج ہو گیا۔ لیکن پھر ان کی آواز بحال ہوئی تو ان کے بقول انھوں نے ’چیخنا چلانا شروع کر دیا۔‘ ٹوائلٹ سے آنے والی آواز سے باقی لڑکے بھی متوجہ ہو گئے اور انھوں نے ہیڈماسٹر کو بلا لیا۔ 15 اور 17 سال کے ان دونوں لڑکوں کو سکول سے خارج کر دیا گیا لیکن ان کے والدین کو یہ نہیں بتایا گیا کہ انھوں نے کیا حرکت کی تھی۔ اس کے بعد سامی کو ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں طلب کر لیا گیا۔ وہاں جو ہوا وہ سامی کے خیال میں ان پر دوسرا حملہ تھا۔ سامی کو بتایا گیا کہ سکول انتظامیہ اس واقعہ کو ایک ایسے جنسی واقعے کے طور پر دیکھے گی جس میں دونوں فریقوں کی رضامندی شامل تھی۔ سامی کو بتایا گیا کہ یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ دوسرے لڑکوں کے ساتھ انھیں سکول سے خارج نہیں کیا گیا اور یوں سامی کو سکول میں رہنے کا ’دوسرا موقع‘ دیا گیا۔ سامی کہتے ہیں کہ ’ہر کوئی یہی سمجھ رہا تھا کہ اس واقعہ میں میری رضامندی شامل تھی۔‘ ٹوائلٹ میں ہونے والے حملے کے بعد سامی اس قدر خوفزدہ ہو گئے کہ انھوں نے اپنے گھر والوں سے اس کا کوئی ذکر نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور کئی ماہ تک کسی اور سے بھی اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کی۔ یہ پہلا موقع تھا جب سامی پر جنسی حملہ ہوا تھا۔ سنہ 2007 میں سامی کے والد کو فوت ہوئے ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا تھا۔ گھر میں کمانے والے واحد شخص کی موت پورے خاندان کے لیے بہت بڑی مصیبت ثابت ہوئی۔ بغداد سے 100 کلومیٹر دور شمال میں بابل کے سرسبز علاقے کے ایک قصبے میں سامی کا بچپن بہت خوشگوار گزرا تھا۔ وہ روزانہ صبح سات بجے جاگتے، سکول چلے جاتے اور دوپہر کے بعد گھر واپس آ جاتے۔ گھر آ کر سامی کچھ دیر اور پڑھائی کرتے اور پھر اپنے بھائی یا بہن کے ساتھ وقت گزارتے۔ شام میں ان کا خاندان کھانے کے لیے سامی کے دادا دادی کے گھر جایا کرتے تھے۔ کبھی کبھار وہ مٹھائی کی اس دکان میں بھی ہاتھ بٹانے چلے جاتے جہاں ان کے والد کام کرتے تھے۔ معاوضے کے طور پر سامی کو کچھ مٹھائی مل جاتی تھی۔ لیکن سامی کے والد کے انتقال کا مطلب یہ تھا کہ اب سامی کو گھر سے نکل کر کمائی کرنا تھی۔ انھیں بھی ایک مقامی دکان میں نوکری مل گئی۔ اور پھر وہاں بھی سامی کے ساتھ ایک خوف ناک واقعہ پیش آیا۔ دکان کا مالک سامی کو جتنی توجہ دیتا تھا، سامی اس سے کچھ پریشان ہو جاتے تھے۔ سامی کہتے ہیں کہ ’وہ مجھ پر ضرورت سے زیادہ ہی پیار نچھاور کرنے لگ گیا تھا۔‘ اور پھر ایک دن جب مالک اور سامی کے علاوہ دکان میں کوئی تیسرا موجود نہیں تھا تو مالک اچانک سامی پر جھپٹ پڑا اور انھیں بوسہ دینے کی کوشش کرنے لگا۔ سامی کا جواب فطری تھا، انھوں نے غیر ارادی طور پر قریب ہی پڑا ہوا شیشے کا چھوٹا مرتبان اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا اور وہاں سے بھاگ گئے۔ سامی نہیں جانتے کہ اس شخص نے مقامی لوگوں کو اس حوالے سے کیا بتایا لیکن انھیں دوسری ملازمت تلاش کرنے میں ایک سال لگ گیا۔ سامی کی والدہ اور بہن بھائی گھر پر نہیں تھے جب سامی سے بڑا ان کا ایک کزن گھر پر آ گیا۔ سامی کے قریب بیٹھے ہوئے اس نے اپنے موبائل پر فحش تصویریں دیکھنا شروع کر دیں۔ اور پھر اچانک اس نے سامی کو پکڑا، انھیں مارا، ان پر غلبہ پایا اور پھر ان کا ریپ کر دیا۔ یہ پرتشدد جنسی حملہ سامی کے لیے ایک درد ناک واقعہ ثابت ہوا۔ یہ اتنا ہولناک تھا کہ آج بھی سامی کو ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔ اس جنسی حملے کے بعد سامی کے لیے اپنے آبائی گھر میں رہنما ممکن نہیں رہا۔ سامی کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنے گھر والوں کو قائل کر لیا کہ اب ہم اس محلے میں نہیں رہ سکتے تھے۔ ہم نے اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے تعلق ختم کر دیا۔‘ اس کے بعد سامی کا خاندان بغداد روانہ ہو گیا، جہاں سب لوگوں کو کام مل گیا۔ لیکن بغداد آنے کے بعد بھی سامی کو جنسی حملوں کے ڈراؤنے خواب آتے رہے اور وہ کسی سے بھی رومانی تعلق قائم کرنے سے کتراتے رہے۔ پھر آہستہ آہستہ جب شہر کے نئے دوستوں پر ان کا اعتبار بڑھتا گیا تو سامی نے ایک فیصلہ کر لیا۔ انھوں نے طے کر لیا کہ اب وہ اپنے تلخ تجربات کا بوجھ اکیلے نہیں اٹھائیں گے۔ تجرباتی طور پر سامی نے ان واقعات کا ذکر اپنے قریبی دوستوں سے کیا۔ دوستوں کا ردعمل غیر متوقع تھا جس سے سامی کو احساس ہوا کہ ان کے ساتھ جو ہوا، وہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ ان کے گروپ کے باقی لڑکوں کا بھی یہی کہنا تھا کہ ان کو بھی جنسی حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بی بی سی عربی سروس نے دس عرب ممالک اور فلسطینی علاقوں میں ایک سروے کیا تو معلوم ہوا کہ ان میں سے دو ممالک، تیونس اور عراق، ایسے ملک ہیں جہاں زبانی اور جسمانی جنسی تشدد کی شکایات خواتین کی نسبت مرد زیادہ کرتے ہیں۔ تیونس میں مردوں اور خواتین کے درمیان فرق بہت کم تھا، یعنی مردوں میں صرف ایک فیصد زیادہ۔ لیکن عراق میں یہ فرق خاصا زیادہ نظر آیا جہاں جائزے میں حصہ لینے والے مردوں میں سے 39 فیصد کا کہنا تھا کہ انھیں لوگوں سے زبان سے جنسی ہراس کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ایسی خواتین کا تناسب 33 فیصد تھا۔اس کے علاوہ 20 فیصد عراقی مردوں کا کہنا تھا کہ انھیں جسمانی طور پر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جبکہ خواتین میں سے یہ شکایت 17 فیصد نے کی۔ اس کے علاوہ گھریلو تشدد کے سلسلے میں بھی خواتین کی نسبت مردوں نے اپنے تجربات کا اظہار زیادہ کیا۔ عراق میں خواتین کے حقوق کی صورتحال جس قدر خراب ہے، اسے سامنے رکھا جائے تو جائزے کے یہ نتائج حیران کن ہیں۔ اور اگر آپ یہ بات سامنے رکھیں کہ ملک کے قانون میں صاف لکھا ہے کہ بیوی پر تشدد کرنا غیرقانونی ہے، تو یہ نتائج اور بھی زیادہ حیران کن دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ’عرب بیرو میٹر‘ نامی تنظیم سے منسلک ڈاکٹر کیتھرن ٹامس خبردار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہمیں ان نتائج کو من وعن تسلیم نہیں کر لینا چاہیے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ خواتین جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے بارے میں بات کرنے کے بجائے خاموش رہنے کو ترجیح دیتی ہوں۔ ان کے بقول جب آپ کسی سے ہراس جیسے موضوع پر بات کرتے ہیں تو اس میں کچھ مسائل ہو سکتے ہیں کیونکہ ’لوگ اس حوالے سے پوری بات نہیں کرتے کیونکہ وہ شاید شرمندگی محسوس کرتے ہیں، یہ بات ان کو ناگوار گزرتی ہے اور ہو سکتا کہ انھیں خوف ہو کہ اگر انھوں نے اس کا ذکر کیا تو انھیں برے نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘ اس لیے ہو سکتا ہے کہ خواتین ایسے تجربات کے بارے میں مردوں کی نسبت کم بتاتی ہوں۔ حقوق انسانی کی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ سے منسلک بلقیس ولی بھی ڈاکٹر کیتھرن ٹامس کے موقف سے اتفاق کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’خواتین عموماً آگے آنے سے کتراتی ہیں اور خواتین گھریلو تشدد اور جنسی زیادتی کو ایک دوسرے سے الگ بھی نہیں کرتیں۔ خواتین اس قسم کی اصطلاحات سے ناآشنا ہو سکتی ہیں۔‘ بلقیس ولی کا کہنا تھا کہ انھیں اس رجحان کا مشاہدہ عراقی ہسپتالوں میں بھی ہوا۔ ملکی قانون کے مطابق ہسپتالوں میں سکیورٹی اہلکار ہر وقت موجود ہوتے ہیں اور ڈاکٹروں پر لازم ہے کہ اگر کوئی خاتون کہتی ہے کہ اس پر تشدد ہوا ہے تو ڈاکٹر یہ بات سکیورٹی حکام کو بتائیں۔ لیکن ’اکثر خواتین زیادتی کرنے والے شخص کو بچانے کے لیے جھوٹ بول دیتی ہیں، خاص طور اس وقت جب انھیں خطرہ ہو کہ سچ بتانے کی صورت میں مذکورہ شخص ان سے بدلہ بھی لے سکتا ہے۔‘ خواتین پر تشدد کے علاوہ ہیومن رائٹس واچ کو یہ بھی معلوم ہے کہ عراق میں ہم جنس پرست مردوں اور خواجہ سراؤں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن اکثر ان واقعات کی رپورٹ تھانوں میں درج نہیں کرائی جاتی۔ عراق میں ہم جنس پرست مردوں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم سے منسلک عامر عشور کہتے ہیں کہ ’ایسے مرد جو (مقامی لوگوں کے مطابق) خواتین جیسے دکھائی دیتے ہیں یا خواتین کی طرح بات کرتے ہیں، انھیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ’اس قسم کے جرائم ہوتے رہتے ہیں کیونکہ عراق کی معاشرتی اقدار مردوں کو اجازت نہیں دیتیں کہ وہ ان چیزوں کے بارے میں بات کر سکیں۔ ایسے واقعات کا ذکر کرنے سے ہو سکتا کہ دوسروں کو معلوم ہو جائے کہ شکایت کرنے والا ہم جنس پرست ہے تو پھر اس پر زیادہ جنسی تشدد ہو سکتا ہے۔‘سامی کی گفتگو میں بھی ان باتوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں نہیں کہ مردوں کے ساتھ ریپ کرنا بھی غیر قانونی ہے، لیکن پولیس اور معاشرے میں جنسی تشدد کے شکار مردوں کے لیے بہت کم ہمدردی پائی جاتی ہے۔ان کے بقول ’اگر کوئی پولیس کو کسی مرد کے ساتھ ریپ کے واقعے کا بتاتا ہے تو امکان یہی ہوتا ہے کہ پولیس والے اس پر ہنسیں گے۔‘ بی بی سی عربی نے اپنے جائزے میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے دس ممالک میں 25 ہزار سے زیادہ افراد سے سوال پوچھے۔ ان ممالک میں الجزائر، مصر، عراق، کویت، لبنان، مراکش، سوڈان، تیونس اور یمن کے علاوہ فلسطینی علاقے بھی شامل تھے۔کسی سروے میں حصہ لینے والے افراد کی تعداد، حصہ لینے والے ممالک اور سوالات کی تعداد کے لحاظ سے یہ جائزہ اپنی نوعیت کا سب سے بڑا سروے تھا۔یہ جائزہ امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی سے منسلک تنظیم ’عرب بیرومیٹر‘ کے تعاون سے کیا گیا تھا۔سامی کو وہ جنسی تشدد بھولا نہیں جس کا تجربہ انھیں 13 سال کی عمر میں سکول میں ہوا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ تب بھی اس واقعے کا ذمہ دار انھیں قرار دیا گیا تھا، اور اگر ایسا دوبارہ ہوتا ہے تو تب بھی انھیں ہی ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔وہ کہتے ہیں کہ ’اگر میں اس ریپ کی شکایت کرتا تو امکان یہی ہے کہ پولیس مجھے مظلوم سمجھنے کی بجائے مجھے ہی جیل میں ڈال دیتی۔ پولیس مجھے بھی ریپ میں شریک سمجھتی اور اس سارے واقعے کو ہم جنس پرستی کا واقعہ قرار دیتی ہے۔‘یوں ’ قانون تو میرے ساتھ ہے، لیکن قانون نافذ کرنے والے میرے ساتھ نہیں۔‘پولیس کے اس مبینہ رجحان کے بارے میں ان کے ترجمان کا ایک تحریری بیان میں کہنا تھا کہ ’ہمارے دروازے تمام شہریوں کے لیے کھلے ہیں۔ جب بھی جنسی تشدد کے شکار یا جنسی طور پر ہراساں کیے جانے والے افراد نے کوئی شکایت درج کرائی ہے، مجرموں کو گرفتار کیا گیا ہے۔‘بیان میں مزید کہا گیا کہ سنہ 2003 سے ایک نئی حکمت عملی اپنائی گئی ہے جو ملک کے انسانی حقوق کے نئے قوانین کی روشنی میں تیار کی گئی ہے اور اس قسم کے معاملات سے نمٹنے کے لیے خصوصی طور پر تربیت یافتہ اہلکار بھی بھرتی کیے گئے ہیں۔اب سامی کی زندگی بہتر ہو گئی ہے۔ انھیں بغداد میں رہنا پسند ہے۔ وہ ایک بڑی بین الاقوامی کمپنی میں ملازم ہیں اور انھیں ایسے دوستوں کا سہارا بھی حاصل ہے جو سامی کے ماضی سے آگاہ ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ بی بی سی کو اپنی کہانی سنانے سے وہ مردوں کی حوصلہ افزائی کریں گے کہ وہ بھی اپنے تجربات کے بارے میں بات کریں لیکن ماضی کی کتاب ابھی تک بند نہیں ہوئی۔ سامی اب بھی محسوس کرتے ہیں کہ وہ کسی کے ساتھ رشتہ قائم نہیں کر سکتے۔وہ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ جب وہ خود بدل جائیں، اور عراقی معاشرہ بھی تبدیل ہو جائے تو ایک دن انھیں بھی اپنا ساتھی مل جائے۔ ان کے بقول وہ رشتے کے بارے میں تب سوچیں گے جب وہ 35 سال کے ہو جائیں گے۔