counter easy hit

پاکستان پر حملے اور غلبے کے لیے یہ بہترین وقت، آدھے بھارت کا یقین

ہمیں حالتِ جنگ میں رہنا ہے‘ جب تک ہماری عسکری قوت بھارت کے برابر نہ ہو جائے۔ نہیں ہو سکتی‘ جب تک کہ ہم اپنی معیشت کو جدید خطوط پہ استوار نہ کر یں۔ سیاسی استحکام کے بغیر یہ ناممکن ہے۔ بدقسمتی سے اس کا ادراک نون لیگ کو تھا‘ زرداری صاحب اور نہ نوبل انعام کے تمنائی عمران خان صاحب مدظلہ العالیٰ کو۔

اقتدار کا نشہ اعصاب میں گھل جائے تو حاصل کرنے اور حکومت بچانے کے سوا کچھ نہیں بچتا۔ سامنے کی بات یہ ہے: امریکہ بھارت کا تزویراتی حلیف ہے اور اب اسرائیل بھی۔ خطے میں اس کی حتمی ترجیح یہ ہے کہ بھارت کو علاقے کا تھانیدار بنایا جائے۔ بڑھتے پھیلتے چین کو بہرحال روک دیا جائے۔ اس لئے کہ یہ عظیم اقتصادی قوت ‘ بتدریج انکل سام سے زیادہ بارسوخ ہو سکتی ہے۔عالمی طاقتوں کی برتری محض عسکری نہیں ہوتی بلکہ مالیاتی اور ذرائع ابلاغ کی بھی۔ دنیا بھر میں لین دین ڈالرمیں ہوتا ہے‘ اس لیے کہ پیچھے ایک سپرپاور کھڑی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو؟اگر سی این این ‘ بی بی سی‘ نیویارک ٹائمز اورواشنگٹن پوسٹ پشت پناہی کے لئے بروئے کار نہ ہوں؟ اگر آئی ایم ایف اور عالمی بینک پہ اجارہ داری نہ رہے؟ اگر اسلحہ سازی میں ریاست ہائے متحدہ کا غلبہ باقی نہ رہے؟ اگر دنیا بھر میں اس کی افواج متمکن اور سمندروں میں اس کے بحری بیڑے رواں نہ ہوں؟ امریکی معاشی قوت شاید آدھی سے بھی کم رہ جائے۔ تیسری دنیا کے وسائل کی لوٹ مار کے قابل نہ رہے۔ جی نہیں‘ امریکہ دنیا کی تھانیداری سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔ دنیا بھر کی صنعت و تجارت میں اس کا عمل دخل تمام ہوگا تو کمزور ممالک رہائی پانے والے پرندوں کی طرح اڑ جائیں گے۔ سیاست‘ بالخصوص عالمی سیاست کو اخلاقیات سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔

اقوام کے باہمی تعلقات میں طاقت ہی واحد ترازو ہے‘ ہر چیز جس میں تلتی ہے‘ اخلاق بھی‘ اقدار بھی‘ نفع اور نقصان بھی۔ اے زر تو خدا نیست ولے۔ستّار العیوب و قاضی الحجات ۔افلاس شیر کولومڑی بنا دیتا ہے۔ابھینندن کی رہائی کا فیصلہ درست ثابت ہوا۔ بھارت میں تقسیم نے جنم لیا۔ اس کا مطلب مگر یہ نہیں کہ امریکہ اپنے سو سالہ غلبے اور بھارت اپنے عزائم سے دستبردار ہو جائے گا۔ واشنگٹن کی بنیادی پالیسی یہ ہے کہ کوئی دوسری عالمی طاقت ابھرنے نہ پائے۔ سویت یونین کی تباہی کے لئے تبھی اتنی تگ و تاز تھی۔ چین کو روکنے کے لئے آسٹریلیا‘ برطانیہ اور تائیوان سمیت کئی ممالک اس کے ہم نفس ہیں۔ خود کو بھارت ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت سمجھتا ہے۔ امریکی اس کے ہم نوا اور سرپرست ہیں۔ ادھر چین پاکستان کو اپنے حلقۂ اثر میں لانے پر تلا ہے۔ سی پیک کی بنیاد یہی ہے۔ یہ جسارت معاف کیسے کی جا سکتی ہے؟ اسی خاطر بھارت کے لئے اسرائیلی ٹیکنالوجی کے دروازے کھلے ہیں۔ خود اسرائیل‘ پاکستان کو سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے۔عالم اسلام میں ایٹمی پروگرام اور کون رکھتا ہے؟ حجاز مقدس کو خطرہ لاحق ہو تو اورکون اس کی حفاظت کے لئے اٹھے گا؟بھارت میں بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان پر یلغار کے لئے یہ بہترین وقت ہے۔ اس لئے کہ معاشی طور پہ وہ زبوں حال ہے۔ حرفِ آخر یہ کہ جنگ کا امکان کم ہے‘ مگر ایسا بھی کم نہیں کہ پکنک منانے بیٹھ جائیں۔لینن کے رفیق ٹراٹسکی نے کہا تھا: ہم جنگ کے آرزومند ہوں یا نہ ہوں‘ جنگ ہمارے دروازے پر دستک دینے کی آرزومند ہوتی ہے۔