تحریر۔ جاوید چوہدری
جنرل پرویز مشرف اور افتخار محمد چودھری دونوں بیک وقت خوش نصیب اور بدقسمت ترین کردار ہیں‘ آپ ان کی اٹھان اور آخر میں کٹی پتنگ کی طرح گرنے کی داستان پڑھیں‘ آپ توبہ استغفار پر مجبور ہو جائیں گے‘ یہ دونوں ثابت کرتے ہیں اللہ جن بااختیار لوگوں سے ناراض ہوتا ہے یہ انہیں کرسی سے اتار کر طویل زندگی دے دیتا ہے اور یہ باقی زندگی عظمت رفتہ کا نوحہ بن کر گزارتے ہیں‘ جنرل پرویز مشرف کون تھے؟ یہ کلرک سید مشرف اور سکول ٹیچر زرین مشرف کے بیٹے تھے‘ ماں کرائے کے پیسے بچاتی تھی‘ فروٹ خریدتی تھی اور پرویز مشرف یہ فروٹ کھاتے تھے‘ یہ بھائیوں کے مقابلے میں نالائق تھے‘ یہ فوج میں بھی ”ایوریج“ تھے‘ فوج سے کئی بار نکلتے نکلتے بچے‘ کیریئر کے شروع میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف نے ان کی مدد کی‘ جنرل اعجاز عظیم بھی ایک بار ان کےلئے غیبی فرشتہ بنے‘ یہ میجر جنرل راشد قریشی کے سسر تھے‘ جنرل مشرف اور راشد قریشی کے تعلقات کے پیچھے جنرل اعجاز عظیم کا احسان تھا‘ یہ 1998ءمیں منگلا کے کور کمانڈر تھے‘ ریٹائرمنٹ یقینی تھی‘ یہ سامان پیک کر رہے تھے‘ میاں شہباز شریف اور چودھری نثار نے ان کی سفارش کی اور میاں نواز شریف نے سینئر جرنیلوں کو مسترد کر کے انہیں آرمی چیف بنا دیا‘ یہ شکل اور خاندان سے مسکین لگتے تھے‘ میاں برادران نے ان کی مسکینی کی وجہ سے انہیں آرمی چیف بنایا تھا لیکن پھر اسی مسکین نے میاں صاحبان کا دھڑن تختہ کر دیا اور شریف خاندان ہیوی مینڈیٹ سمیت جنرل مشرف کی قید میں آگیا۔
دنیا نے شروع میں جنرل پرویز مشرف کو قبول نہیں کیا‘ سعودی عرب‘ امریکا اور برطانیہ تینوں میاں نواز شریف کے ساتھ تھے‘ صدر بل کلنٹن 25 مارچ 2000ءکو چند گھنٹوں کےلئے پاکستان آئے‘ صدر رفیق احمد تارڑ سے ملاقات کی اور سامنے بیٹھے جنرل پرویز مشرف کی طرف آنکھ اٹھا کربھی نہ دیکھا‘ سعودی سفیر بھی ملک کے نئے چیف ایگزیکٹو سے ملاقات کےلئے تیار نہیں تھا اور برطانیہ نے بھی پاکستان سے قطع تعلق کر لیا تھا لیکن پھر جنرل پرویز مشرف کی قسمت چمکی‘ نائین الیون ہوا اور یہ پوری دنیا کی آنکھ کا تارا بن گئے‘ وہ امریکا جو کبھی جنرل مشرف سے ہاتھ ملانے کےلئے تیار نہیں تھا وہ انہیں کانگریس میں خطاب کی دعوت دینے لگا‘ وہ سعودی عرب جس نے اپنے سفیر کو جنرل مشرف سے ملاقات سے روک دیا تھا وہ جنرل پرویز مشرف کےلئے خانہ کعبہ اور روضہ رسول کے دروازے کھولنے لگا اور وہ برطانیہ جس نے پاکستان سے قطع تعلق کر رکھا تھا اس کی ملکہ محل کے دروازے کھول کر ملٹری ڈکٹیٹر کا استقبال کرنے لگی‘ میں دل سے یہ سمجھتا ہوں اگر نائین الیون ایک سال پہلے ہو گیا ہوتا تو جنرل مشرف میاں نواز شریف کو پھانسی دے دیتے اور دنیا کا کوئی ملک احتجاج نہ کرتا‘ یہ میاں نواز شریف کی ”لک“ تھی‘ نائین الیون شریف خاندان کی جلاوطنی کے بعد ہوا ورنہ آج تاریخ مختلف ہوتی‘
بہرحال نائین الیون کے بعد جنرل پرویز کا ستارہ مزید چمکنے لگا‘ یہ وہ سب کچھ کرتے چلے گئے جو ان کے دل میں آتا تھا‘ جنرل پرویز مشرف 2007ءتک عروج پر رہے لیکن پھر مارچ 2007ءمیں ملک کے دوسرے خوش نصیب ترین شخص چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ان سے ٹکرا گئے‘ افتخار محمد چودھری بھی کوئٹہ کے درمیانے درجے کے وکیل تھے‘ یہ 1990 ءمیں عدلیہ میں آئے اور بلوچستان کے ڈومی سائل کی وجہ سے ترقی کرتے چلے گئے‘ جنوری 2000ءمیں سپریم کورٹ کے چھ ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا‘ چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی بھی ان میں شامل تھے ‘افتخار محمد چودھری کوئٹہ ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ آف پاکستان آ گئے‘یہ 30 جون 2005ءکو ملکی تاریخ میں طویل ترین مدت کےلئے چیف جسٹس بن گئے‘ یہ پاکستانی عدلیہ کے خوش نصیب ترین جج اور جنرل مشرف فوج کے خوش قسمت ترین جرنیل تھے‘ یہ دونوں 2007ءمیں ٹکرائے اور جنرل پرویز مشرف کا ستارہ پسپا ہونے لگا‘ جنرل مشرف نے 28 نومبر 2007ءکو یونیفارم اتار دی‘ یونیفارم اترنے کی دیر تھی جنرل مشرف کی طاقت‘ سیاست اور بھرم تینوں ننگے ہو گئے‘ شوکت عزیز لندن گئے اور واپس مڑ کر نہ دیکھا‘ چودھریوں نے پاکستان مسلم لیگ ق پر قبضہ کر لیا‘ فوج نئے کمانڈر جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ہاتھ میں چلی گئی‘ ایوان صدر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے خالی کرا لیا ‘ یہ مہاجر بن کر ایم کیو ایم کی طرف گئے تو الطاف بھائی پرانے کھاتے کھول لئے اور پیچھے رہ گئی جمع پونجی تو یہ درانیوں‘ میمنوں اور شیخوں کے پیٹ میں چلی گئی‘ امریکا‘ برطانیہ‘ یو اے ای اور سعودی عرب نے شروع میں اپنے پرانے ساتھی کا ساتھ دیا لیکن پھر یہ بھی پیچھے ہٹتے چلے گئے ‘ جنرل مشرف نے آخری کوشش کی‘ اپنی پارٹی بنائی لیکن جو باقی بچا تھا وہ فواد چودھری جیسے ماہرین کے کام آ گیا اور یوں جنرل پرویز مشرف آہ‘ اف اور ہائے بن کر رہ گئے۔
میاں نواز شریف 2013ءمیں اقتدار میں آئے اور جنرل مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی شروع کر دی‘ یہ مشرف کو ہر صورت سزا دینا چاہتے تھے‘ جنرل کیانی اس معاملے میں نیوٹرل تھے لیکن پھر راحیل شریف آرمی چیف بن گئے‘ یہ اپنے شہید بھائی میجر شبیر شریف کے دوست جنرل مشرف کے ساتھ کھڑے ہو گئے‘ یہاں سے فوج اور حکومت میں اختلافات پیدا ہوئے‘ فوج نے جنرل مشرف کو آرمی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل کرا دیا‘ پھر دھرنے آ گئے‘ حکومت کمزور ہو گئی‘ جنرل پرویز مشرف کو اس کمزوری کا فائدہ پہنچا‘ حکومت نے جنرل مشرف کا پیچھا چھوڑ دیا اور یوں یہ اپنی ”مصروفیات“ میں مصروف ہو گئے لیکن یہ پاکستان میں رہ رہ کر تھک گئے تھے‘ یہ دبئی‘ لندن اور نیویارک کو ”مس“ کر رہے تھے‘ یہ مارچ 2016ءمیں ”شدید بیمار“ ہو گئے‘ کراچی کے نجی ہسپتال میں داخل ہو ئے‘ ڈاکٹروں کے بورڈ نے ریڑھ کی ہڈی اور بائیں پاﺅں میں تکلیف کی نشاندہی کی‘ پاکستان میں اس ”خوفناک“ مرض کا علاج نہیں تھا چنانچہ طبی بورڈ نے انہیں ملک سے باہر لے جانے کا مشورہ دیا‘ حکومت اور عدلیہ ”خوفناک“ مرض کی وجہ سے نرم پڑ گئی‘ جنرل مشرف کا نام ای سی ایل سے ہٹا اور یہ 17 مارچ کودوبئی چلے گئے‘ آپ ہوائی سفر کی ”برکت“ ملاحظہ کیجئے‘ جنرل مشرف وہیل چیئر پر جہاز میں سوار ہوئے لیکن یہ دوبئی میں دوڑتے ہوئے سیڑھیوں سے نیچے اترے اور اترتے ہی اپنے پسندیدہ سگار کا کش لگا کر صحت مندی کا جشن منایا۔
جنرل مشرف پچھلے چھ ماہ سے لندن اور نیویارک میں زندگی انجوائے کر رہے ہیں جبکہ عدالتیں پاکستان میں دھڑا دھڑ ان کی جائیدادوں کی ضبطی کے احکامات جاری کر رہی ہیں‘ جنرل مشرف کی رہائش گاہوں پر حکومتی نوٹس لگ رہے ہیں‘ یہ سلسلہ چل رہا تھا لیکن پھر اچانک نہلے پر دہلہ آ گرا‘ جنرل پرویز مشرف اپنی اہلیہ صہبا مشرف کے ساتھ 25 ستمبر 2016ءکو نیویارک میں اپنی بھتیجی کی شادی میں شریک ہوئے‘ خوشی سے ان کے پاﺅں تھرکنے لگے‘ جنرل مشرف کے رقص کی ویڈیو ان کے اپنے ٹویٹر اکاﺅنٹ پر اپ لوڈ ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہو گئی‘یہ ویڈیو دنیا کے کروڑوں لوگ دیکھ چکے ہیں‘ جنرل مشرف ویڈیو میں صحت مند لوگوں سے زیادہ اپنی کمر مٹکا رہے ہیں‘ یہ اس وقت 73 سال کے ہیں‘ آپ ان کے ہم عمر ہیں تو آپ اٹھ کر اپنی کمر مٹکا کر دیکھ لیجئے‘ آپ رقص میں جنرل مشرف کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے‘ یہ کیا ہے؟ یہ رقص‘ رقص نہیں ہے یہ حکومت‘ عدلیہ اور طبی اخلاقیات کا جنازہ ہے‘ آپ غور کیجئے جنرل مشرف کو 11 پروفیسر ڈاکٹروں کے بورڈ نے ”خوفناک مریض“ قرار دیا تھا‘ بورڈ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر امتیاز ہاشمی تھے‘ یہ اور ان کے کولیگز تمام لوگ سینئر ڈاکٹر ہیں‘ یہ رپورٹ عدالت میں پیش ہوئی‘ عدالت نے رپورٹ من وعن تسلیم کر لی اور چودھری نثار نے عدالت کا حکم مان کر جنرل مشرف کا نام ”ای سی ایل“ سے نکال دیا گویا یہ تمام لوگ اس جعل سازی میں ملوث ہیں‘ ہماری سپریم کورٹ اگر واقعی سپریم ہے تو پھر یہ ان تمام لوگوں کو طلب کرے اور جنرل مشرف کی جھوٹی رپورٹ جاری کرنے پر ان کا محاسبہ کرے‘ عدالت کو سب سے پہلے 11 پروفیسروں کی ڈگریاں ضبط کرنی چاہئیں اور اس کے ساتھ ہی جونیئر عدالت‘ سندھ حکومت اور وفاقی وزارت داخلہ کو کٹہرے میں کھڑا کردینا چاہیے اور اگر سپریم کورٹ یہ نہیں کرتی تو پھر پوری قوم کو عدل‘ انصاف اور اخلاقیات کا جنازہ پڑھنا چاہیے‘ ہم سب باہر نکلیں‘ صفیں باندھیں‘ تکبیر پڑھیں‘ انصاف کا جنازہ ادا کریں‘ عدل کو ہمیشہ ہمیشہ کےلئے دفن کریں اور پھر یک آواز ہو کر گائیں ”میں شکر ونڈاں رے‘ میں شکر ونڈاں رے“ اور اگر کمر اجازت دے تو ہم لوگ یہ گاتے جائیں اور جنرل مشرف کی طرح ناچتے جائیں۔
یہ قوم کی طرف سے انصاف کےلئے بیسٹ ٹری بیوٹ ہوگا۔